Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو، (اصل میں اور سب سے پہلے تو) تم اپنی فکر کرو دوسرے کسی کی گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب کہ تم خود ہدایت پر ہو (اور یاد رکھو کہ) بالآخر اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو، پھر وہ بتادے گا تم کو وہ سب کچھ جو تم کرتے رہے تھے (زندگی بھر)
278 دوسروں کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنی فکر کرنے کی ضرورت : سو اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اپنی فکر کرو دوسرے کسی کی گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جبکہ تم لوگ خود ہدایت پر ہوؤ۔ پس تم لوگوں کو دوسروں کی عیب چینی اور خوردہ گیری کرنے کی بجائے سب سے پہلے اپنی فکر کرنی چاہیئے کہ انسان اصل میں اور سب سے پہلے اپنا ہی ذمہ دار ہے۔ اور اپنی ذات ہی کے بارے میں اس سے پوچھ ہوگی۔ پس تم اپنی فکر کرو اور تم سے اسی بارے پوچھ ہوگی۔ زمحشری کہتے ہیں کہ جو لوگ فاسقوں اور فاجروں کے پیچھے پڑنے، ان کی عیب جوئی اور خوردہ گری کرنے ہی کو اپنا شیوہ بنالیتے ہیں وہی اس کے اصل مخاطب ہیں۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ سو یہ ایک بڑی عظیم الشان ہدایت ہے جو اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ انسان جب دوسروں کی عیب جوئی اور خوردہ گیری کرنے لگتا ہے تو وہ اپنی اصلاح سے غافل ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح وہ بڑے خسارے میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو انسان دوسروں کی بجائے سب سے پہلے اپنی اصلاح کا محتاج ہے۔ اور اس کو اپنے عیبوں ہی پر سب سے زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کا درس انسان کی فطرت کے اندر اس طرح موجود اور مرکوز ہے کہ انسان جب کسی دوسرے کی طرف انگلی اٹھاتا ہے تو اس کی تین انگلیاں خود اس کی اپنی طرف مڑی ہوتی ہیں مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتا اور اپنی فطرت میں مرکوز اس عظیم الشان درس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ اور اس طرح وہ خسارے میں پڑجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 279 یوم حساب کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بالآخر تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر وہ تم لوگوں کو بتادے گا وہ سب کچھ جو تم قتل کر رہے تھے یعنی اپنی زندگیوں میں اور اس کے مطابق تمہیں اپنے کیے کرائے کا بدلہ پانا ہوگا۔ اس لئے اصل اور سب سے پہلے اپنی اصلاح و فکر کرو اور ہمیشہ یہ بات اپنے پیش نظر رکھو کہ حساب اور معاد کے اس یوم عظیم کیلئے میں نے کیا تیاری کی ہے اور کیا سامان جمع کیا ہے۔ سو یوم حساب کی تذکیر و یاددہانی اصلاح فرد و معاشرے کیلئے ایک انقلاب آفریں تاثیر رکھتی ہے۔ اس لیے قرآن حکیم میں اس کا جگہ جگہ اور طرح طرح سے اہتمام فرمایا گیا ہے کہ دنیا والوں کی نگاہوں سے تو انسان چھپ اور بچ سکتا ہے لیکن حساب و جزا کے اس یوم عظیم کی پرسش اور گرفت و پکڑ سے بچنا اس کے لئے کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اس یوم حساب کو ہمیشہ یاد رکھے کہ وہاں پر اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا جواب میں نے خود دینا ہے۔ وہاں پر کوئی دوسرا نہ میرے کچھ کام آسکے گا اور نہ کسی کی وجہ سے میری جواب دہی کا بوجھ مجھ سے ہلکا ہو سکے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
Top