Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور جب کہ میں نے حواریوں کے دل میں ڈالی یہ بات کہ تم ایمان لاؤ مجھ پر، اور میرے رسول پر، تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم (صدق دل سے) ایمان لے آئے، اور آپ گواہ رہیئے کہ ہم پورے فرمانبردار ہیں2
297 لفظ وحی اپنے لغوی معنیٰ میں :ـسو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بھی قابل ذکر ہے جب میں نے حواریوں کے دل میں بات ڈالی۔ یعنی وحی کا لفظ یہاں پر اپنے معروف معنوں میں نہیں بلکہ القاء والہام کے مفہوم میں ہے۔ کیونکہ وحی اپنے معروف معنیٰ و مفہوم کے اعتبار سے حضرات انبیاء ورسل ہی کے ساتھ مختص ہوتی ہے۔ البتہ اپنے لغوی معنیٰ کے اعتبار سے یہ غیر انبیاء کے لئے بھی ہوسکتی ہے، بلکہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر شہد کی مکھی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلٰی النَّحْلِ } ۔ (النحل : 68) ۔ سو اسی طرح یہاں بھی ہے کہ حواریوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ بات ڈال دی کہ وہ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں۔ تو وہ فورً ایمان لے آئے۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ " ۔ وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ ۔ جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم ایمان لے آؤ مجھ پر اور میرے رسول پر "۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے حواریوں کی طرف وحی کی حضرت عیسیٰ کے توسط سے۔ یعنی عیسیٰ کے ذریعے ان کو پیغام دیا گیا۔ حواریوں سے اس طرح کہا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم ایمان لے آئے۔ پس آپ ہمارے گواہ رہیئے۔ سو یہ بھی قدرت کی طرف سے حضرت عیسیٰ پر ایک خاص انعام تھا۔ 298 حواریوں کے اعلان ایمان کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرت عیسیٰ پر ایک اور انعام اور احسان خداوندی کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ حواریوں نے کہا کہ ہم صدق دل سے ایمان لے آئے۔ پس آپ گواہ رہیں کہ ہم پورے فرمانبردار ہیں۔ اور رب کی طرف سے اب ہمیں جو بھی حکم ہمیں ملے گا اس کے لئے ہم سرتسلیم خم ہیں۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم احسان تھا حضرت عیسیٰ پر کہ حواری اس طرح فوری طور پر انکے مطیع اور فرمانبردار بن گئے اور انہوں نے دل و جان سے اس پیغام حق و ہدایت کو قبول کرلیا۔ اور انہوں نے اپنے اس ایمان و یقین کا صاف اور صریح طور پر اقرار و اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ اور اس طرح حضرت عیسیٰ کو حواریوں کی صورت میں ایسے مخلص ساتھیوں کی جماعت مل گئی جو راہ حق میں آپ کے معین و مددگار بن گئے۔ جبکہ بنی اسرائیل کی اکثریت آپ (علیہ السلام) کو جھٹلا چکی تھی۔ اس لیے انعامات خداوندی کے ذکر وبیان کے ضمن میں یہاں پر حواریوں کے ایمان کے اس انعام کو بھی بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔ " حواری " اصل میں مخلص ساتھی کو کہا جاتا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں کو ان کے صدق و اخلاص کی بنا پر حواری کہا جانے لگا۔ اور اس لفظ و لقب کے ساتھ وہ خاص طور پر مشہور ہوگئے اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوا ہے اور میرا حواری زبیر ہے جو جنت میں میرا پڑوسی ہوگا۔
Top