Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواری (جمع) يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم هَلْ : کیا يَسْتَطِيْعُ : کرسکتا ہے رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ : کہ وہ يُّنَزِّلَ : اتارے عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان قَالَ : اس نے کہا اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اور وہ وقت بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بیٹے مریم کے، کیا آپ کا رب یہ کرسکتا ہے کہ اتار دے ہم پر (نعمتوں بھرا) ایک خوان آسمان سے ؟ (یعنی یہ بات کہیں خلاف حکمت تو نہیں) (تو اس کے جواب میں عیسیٰ نے ان سے) کہا کہ تم لوگ ڈرو اللہ سے، اگر تم واقعی ایماندار ہو،
299 { ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ } کا معنیٰ و مفہوم ؟ : سو حواریوں کے اس سوال کا مقصد جیسا کہ ترجمہ کے اندر بین القوسین کے الفاظ سے اشارہ کیا گیا ہے یہ تھا کہ کہیں ہماری یہ درخواست حکمت و مصلحت کے خلاف تو نہیں۔ یعنی ان کو حق تعالیٰ کی استطاعت اور قدرت الہٰی میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ تو کفر ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بلکہ اس طرح کا سوال کرنے سے ان کا مقصود و مدعا یہ تھا کہ کیا ہماری یہ درخواست پیش کرنے اور قبول کرنے کے قابل ہے کہ نہیں۔ جیسا کہ عام محاورے میں کہا جاتا ہے کہ کیا جناب والا ہماری اس درخواست کو پورا فرماس کیں گے ؟ یا یہ کہ کیا ہم اپنی فلاں درخواست پیش کرسکتے ہیں ؟ یا جیسے گھر میں داخلے کی اجازت مانگنے والا شخص کہتا ہے کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسی ہر صورت میں سوال قدرت اور طاقت سے نہیں ہوتا بلکہ اس معنیٰ میں ہوتا ہے کہ کیا ہماری یہ اپیل و درخواست قبول کیے جانے کے لائق ہے ؟۔ سو ایسے ہی یہاں بھی سمجھا جائے۔ یعنی کیا ہماری یہ درخواست قبول کئے جانے کے لائق ہے کہ آپ ﷺ کا رب آسمان سے ہم پر اس طرح کا کوئی خوان نعمت اتار دے۔ سو حضرت عیسیٰ کے ان مخلص ساتھیوں اور حواریوں نے اس طرح حضرت عیسیٰ کے توسط سے یہ درخواست اپنے رب کے حضور پیش کی۔ 300 تقویٰ و پرہیزگاری تقاضائے ایمان : سو حضرت عیسیٰ نے اپنے جواب میں ان سے ان کے ایمان کا حوالہ دے کر کہا کہ تم اللہ سے ڈرو اگر تم واقعی ایماندار ہو۔ ایمان و یقین کا مقتضیٰ یہی ہے کہ اس طرح کی خلاف عادت فرمائشیں نہ کی جائیں۔ اور ایسی فرمائشیں بعض اوقات فتنے کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ سے ڈرو اور اسطرح کی فرمائشوں سے مجتنب و باز رہو۔ تاکہ تم اس طرح کی آزمائشوں اور فتنہ سامانیوں سے محفوظ رہو۔ بہرکیف یہاں پر ایمان کو شرط کے طور پر ذکر فرمانے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری ایمان صادق کا تقاضا اور اس کا نتیجہ وثمرہ ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق ۔ سو اگر ایمان صحیح اور سچا و پکا ہے تو اس کے نتیجے میں تقویٰ و پرہیزگاری کا ظہور و بروز ضرور ہوگا۔ ورنہ ایمان کا دعویٰ محض زبانی جمع خرچ ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ جَلَّ وَعَلَا ۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ و پرہیزگاری سے بدرجہ تمام و کمال نوازے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین -
Top