Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 117
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
مَا قُلْتُ : میں نے نہیں کہا لَهُمْ : انہیں اِلَّا : مگر مَآ اَمَرْتَنِيْ : جو تونے مجھے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنِ : کہ اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ رَبِّىۡ : میرا رب وَرَبَّكُمْ : اور تمہارا رب وَكُنْتُ : اور میں تھا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : خبردار مَّا دُمْتُ : جب تک میں رہا فِيْهِمْ : ان میں فَلَمَّا : پھر جب تَوَفَّيْتَنِيْ : تونے مجھے اٹھا لیا كُنْتَ : تو تھا اَنْتَ : تو الرَّقِيْبَ : نگران عَلَيْهِمْ : ان پر واَنْتَ : اور تو عَلٰي : پر۔ سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : باخبر
میں نے تو ان سے بس وہی کچھ کہا جس کا آپ نے مجھے حکم فرما رکھا تھا، کہ تم سب اللہ ہی کی بندگی کرو (اے لوگو ! ) جو کہ رب ہے میرا بھی، اور تمہارا بھی، اور میں ان کی پوری طرح نگرانی کرتا رہا جب تک کہ میں ان کے درمیان موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے (اے میرے مالک) اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگران (و نگہبان) تھا،1 اور تو ہر چیز سے پوری طرح آگاہ ہے
313 حضرت عیسیٰ کا اعلان بندگی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ عیسیٰ کہیں گے کہ میں نے تو ان لوگوں سے وہی کچھ کہا جس کا آپ نے مجھے حکم وارشاد فرمایا تھا کہ تم سب لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو جو کہ سب کا رب ہے۔ سو اس کے بندے ہونے میں ہم سب ایک برابر ہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ مجھے اس نے نبوت و رسالت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ شرف وحی سے نوازا ہے اور منصب نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ہے اور بس۔ ورنہ اس کی خدائی کے کسی شائبے کا بھی مجھ میں پائے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ ہمارے حضور۔ (علیہ الصلوۃ والسلام) ۔ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ارشاد فرمایا گیا کہ یوں کہو ۔ { قُلْ اِنّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰیٓ اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌٌ وَّاحِدٌٌ } ۔ (الکہف : 110) " ان سے کہو کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں ایک بشر ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے " ۔ اس مرکزی مضمون کے ساتھ۔ کہ معبود حقیقی تم سب کا اے لوگو ! ایک ہی معبود ہے ۔ یعنی اللہ و حدہ لا شریک۔ سو اپنے اس صاف وصریح اعلان وبیان سے جہاں حضرت عیسیٰ سب دنیا کے سامنے اپنی براءت واضح فرما دیں گے وہاں وہ اپنے ان غالی پیروکاروں کو بھی سب کے سامنے رسوا کریں گے جنہوں نے اپنے غلو سے حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدائی میں شریک بنا رکھا تھا اور حضرت عیسیٰ کے پیش فرمودہ دین توحید کو بدل کر انہوں نے دین شرک بنادیا تھا جسکے نتیجے میں ان کو ہمیشہ ہمیش کیلئے عذاب بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 314 مختار کل اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے : سو حضرت عیسیٰ اپنی جوابدہی میں عرض کریں گے کہ میں زندگی بھر ان کی نگرانی کرتا اور ان کو روکتا رہا ہر برے عقیدے اور غلط عمل سے جہاں تک میرا بس چل سکتا تھا۔ اور جتنا میری قدرت و استطاعت میں تھا۔ اور میں زندگی بھر ان کی نگرانی کرتا رہا اس کے بعد کا نہ مجھے کچھ پتہ ہے اور نہ ہی میرے بس اور اختیار میں کہ مختار کل تو آپ ہی ہیں۔ سب کچھ آپ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور ہر جگہ موجود ہونا اور ہر حال میں موجود ہونا اور ہر چیز کی اطلاع و آگہی رکھنا بھی آپ ہی کی شان ہے۔ میرا کام تو صرف یہ تھا کہ میں زندگی بھر ان کی نگرانی کرتا رہا اور ان کو آپ کی عبادت و بندگی کی دعوت دیتا اور تعلیم و تلقین کرتا رہا۔ اس سے آگے میرا کوئی زور نہیں تھا۔ سو پیغمبر نہ مختار کل ہوتا ہے اور نہ ہر جگہ حاضر و ناظر۔ 315 دنیا سے اٹھنے کے بعد پھر کوئی کچھ نہیں کرسکتا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت عیسیٰ مزید عرض کریں گے کہ مالک جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگران و نگہبان تھا۔ یعنی آپ نے جب مجھے اٹھا لیا دنیا سے آسمان کی طرف اپنی قدرت و عنایت سے یہود بےبہبود کے شر و فساد سے بچاتے ہوئے تو اس کے بعد میری نگرانی بھی ختم ہوگئی اور میرا ان سے تعلق اور ذمہ داری بھی کہ دنیا سے اٹھنے کے بعد کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ اسی لئے موت کے بعد کوئی کسی عمل یا ذمہ داری کا مکلف اور پابند نہیں ہوتا کہ وہ اس کا اہل ہی نہیں ہوتا۔ اور جب حضرت عیسیٰ جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر کا بھی یہ حال ہے تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو مرنے کے بعد کسی کی حاجت روائی یا مشکل کشائی کرسکے ؟۔ سو کس قدر گمراہ اور اندھے اور اوندھے ہیں وہ لوگ جو قبروں میں پڑے ہوئے لوگوں کو پوجتے پکارتے اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے بلاتے ہیں ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم - 316 مردوں کو دنیا کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دنیا سے جانے کے بعد کسی کو پتہ نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت عیسیٰ عرض کریں گے کہ جب تو نے اے میرے مالک مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو ہی ان کا نگران و نگہبان تھا کہ تو ہر چیز سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس کے بعد کا مجھے کچھ پتہ نہیں کہ انہوں نے کیا کیا بدعات اور خرافات ایجاد کیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے اتنے عظیم الشان پیغمبر کو بھی پتہ نہیں اور وہ بھی محض آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد، تو پھر کسی کو اور وہ بھی اس کی حقیقی موت کے بعد کیا پتہ ہوسکتا ہے۔ پس کس قدر بےہودہ بات اور غلط و گمراہ کن عقیدہ ہے ان لوگوں کا جو یہ کہتے ہیں کہ مردہ اپنی قبر پر بیٹھنے والے پرندے کے بارے میں بھی جانتا ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ۔ جیسا کہ اہل بد عت کے بہت سے ملاؤں اور پیشواؤں کا کہنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حضرت عیسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر کہتے ہیں کہ میرے اٹھائے جانے کے بعد تو ہی ان کا نگران تھا۔ تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو اس کے بعد کچھ جان یا کرسکے ؟
Top