Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 120
لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا فِیْهِنَّ١ؕ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور مَا : جو فِيْهِنَّ : ان کے درمیان وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا۔ قادر
اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، اور اور ان سب چیزوں کی جو کہ ان میں پائی جاتی ہیں، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،
321 کائنات پوری میں بادشاہی اللہ ہی کی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی کے لیے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی۔ اور ان سب چیزوں کی جو ان دونوں کے درمیان پائی جاتی ہیں کہ اس کا اس میں نہ کوئی شریک ہے نہ سہیم۔ اور آسمان و زمین کی اس ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے خالق ومالک بھی وہی ہے اور حاکم و متصرف بھی وہی۔ اس لیے معبود حق بھی وہی ہے۔ جب اس کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اس لئے ہر قسم کی عبادت و بندگی اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور شکل اسی کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ اس کے سوا کسی بھی اور چیز یا کسی ہستی کے آگے جھکنا اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانا شرک اور حرام ہے۔ پس اس کے سوا کسی اور کے لئے قیام یا رکوع کرنا، کسی کے آگے سرنگوں ہونا اور سجدہ کرنا یا کسی کے نام کی نذر و نیاز دینا یا کسی کے لئے طواف کرنا وغیرہ سب ممنوع اور حرام ہے کہ یہ سب کچھ شرک کے زمرے میں آتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 322 اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے وہ جو چاہے کرے۔ نہ اس کو کوئی روک سکتا ہے نہ ٹوک سکتا ہے اور نہ اس کی مشیت ومرضی میں کوئی حائل ہوسکتا ہے۔ وہ ایسے تمام تصورات سے اعلیٰ وبالا ہے۔ اور یہ شان اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے معبود بھی اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اسی لئے وہ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے تمام لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا۔ اور یہ سب کچھ وہ قادر مطلق محض اپنے ایک اشارے اور حکم و ارشاد سے کرے گا۔ اور ہر کسی کو اس کی زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ دے گا۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہو سکیں۔ اور اسی کے نتیجے میں وہ مؤمنین صادقین کو ایسی ایسی نعمتوں اور عنایتوں سے نوازیگا جو کہ ان کے تصور سے بھی کہیں بڑھ کر ہونگی۔ جس کے نتیجے میں وہ اس سے راضی ہوجائیں گے۔ اور انہوں نے زندگی بھر اپنے صدق ایمان و یقین کے نتیجے میں جو کچھ کیا تھا اس کی بنا پر ان کا رب ان سے راضی ہوجائے گا۔ اور اس طرح ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہمُ وَ رَضُوْا عنْہٗ ۔ کا مصداق بدرجہ تمام و کمال متحقق ہوجائے گا۔ اور رضائے خداوندی کی اس نعمت سے سرفرازی وہ نعمت خداوندی ہے جس جیسی دوسری کوئی نعمت ممکن ہی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔ اللّٰھُمَّ اِنَّا رَضِیْنَا عَنْکَ فَارْضِ عَنَّا بِمَحضِ مَنِّکَ وَ کَرَمِکَ وَ اِحْسَانِکَ یا ذالجَلَال والاکرام - تمت الحواشی التفسیریۃ لسورۃ المائدۃ بِتَوْفیْقِ اللّٰہِ سُبْحَانَہ وَ تَعَالیٰ و عِنَایِتہٖ فی السّاعۃ السّادسۃ والربع مَسَائً مِنْ یَوم الاربعاء (قُبْیل المغرب) و تاریخ 5 صفر المظفر 1410 مطابق 7 ستمبر 1989 ء بمنزلی الکائن بمنطقہ ام ھریر فی دبی، والحَمدُ للّٰہ ربِّ العلمین
Top