Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 14
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١۪ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰٓى : نصاری اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد فَنَسُوْا : پھر وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : جس کی نصیحت کی گئی تھی فَاَغْرَيْنَا : تو ہم نے لگا دی بَيْنَهُمُ : ان کے درمیان الْعَدَاوَةَ : عداوت وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَسَوْفَ : اور جلد يُنَبِّئُهُمُ : انہیں جتا دے گا اللّٰهُ : اللہ بِمَا كَانُوْا : جو وہ يَصْنَعُوْنَ : کرتے تھے
اور ہم نے ان لوگوں سے بھی عہد لیا جو (کہ نصرت دین کے دعوت سے) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں مگر انہوں نے بھی بھلا دیا ایک بڑا حصہ اس نصیحت کا جو ان کو کی گئی تھی،1 پھر ڈال دی ہم نے ان کے درمیان دشمنی (کی آگ) اور بیر (کی نحوست) قیامت کے دن تک،2 اور آخرکار اللہ ان کو بتادے گا وہ سب کچھ جو یہ لوگ کرتے رہے تھے۔
45 نصاریٰ کے عہد کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان لوگوں سے بھی عہد لیا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاری ہیں۔ سو ان سے اس بات کا عہد لیا گیا کہ تم نے عبادت و بندگی صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کی کرنی ہے۔ اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہرانا کہ اس کا کوئی شریک وسہیم ہے ہی نہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور یہ کہ جو دین و شریعت حضرت محمد ﷺ لے کر آئے ہیں اس کی حفاظت و پابندی کرنا تم پر لازم ہے۔ (محاسن التاویل للعلامۃ الشامی القاسمی ) ۔ اور یہی تقاضا ہے عقل و نقل اور فطرت سلیمہ کا کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی بعثت و تشریف آوری کے بعد تمام سابقہ ادیان منسوخ ہوگئے۔ اور اب نجات کی راہ صرف دین حق اسلام سے وابستگی ہی میں منحصر ہے۔ لہٰذا اب اس دین حق کو صدق دل سے قبول کرنا اور اس کی تعلیمات مقدسہ کو حرز جان بنانا ہی عقل و نقل کا تقاضا اور سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے نصاری سے بھی عہد لیا کہ وہ حق اور اہل حق کی نصرت و امداد کریں مگر انہوں نے اپنی بدبختی اور فساد نیت کی بنا پر اس نصیحت کے ایک بڑے حصے کو فراموش کردیا جس کی تلقین و تاکید ان کو کی گئی تھی۔ اور اس طرح انہوں نے سعادت و سرخروئی کی راہ کو چھوڑ کر ہلاکت و بدبختی کی راہ کو اپنایا جو کہ خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 46 دین حق سے انحراف و اعراض کا نتیجہ تشتّت و انتشار : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دین حق سے اعراض و انحراف کا نتیجہ وانجام تشتت وانتشار ہے کہ ملت کی شیرازہ بندی کا ذریعہ اللہ کی کتاب اور اس کا دین حق ہی تھا۔ اور اس کو انہوں نے ضائع کردیا۔ اب ان کے لئے صحت و سلامتی کا واحد راستہ یہ تھا کہ وہ اپنی کتاب کی پیشینگوئیوں کے مطابق نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے اور ان کے لائے ہوئے دین حق کو دل و جان سے قبول کرلیتے۔ مگر انہوں نے اس سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں یہ لوگ حق و ہدایت کی روشنی سے محروم ہو کر طرح طرح کی گمراہیوں کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ اور یہ ہویٰ وہوس اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گئے۔ اور ان ہی کے بندے اور غلام بن کر رہ گئے۔ پھر اہواء و اَغراض اور مصالح و آراء کے تصادم اور ٹکراؤ سے یہ لوگ آپس میں باہم دست و گریبان ہوگئے۔ اور یہ اسی میں پڑے رہیں گے ۔ والعیاذ باللہ ۔ افسوس کہ آج کچھ یہی حال امت مسلمہ کا بھی ہوگیا ہے۔ یہ بھی آپس میں باہمی لڑائیوں، جھگڑوں، فتنہ و فساد اور جنگ وجدال میں مصروف ہے۔ ملک ملک آپس میں لڑ رہے ہیں۔ جماعتیں اور گروہ آپس میں برسرپیکار ہیں۔ قومیں اور قبیلے ایک دوسرے کی دشمنی اور بیخکنی کے درپے ہیں۔ قتل و قتال کے بازار گرم ہیں۔ خونریزیاں ہو رہی ہیں۔ جگہ جگہ اور طرح طرح سے تصادم اور سر پھٹول کا دور دورہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ البتہ یہ فرق بہرحال موجود ہے کہ اہل کتاب نے تو اپنے دین کی سچی اور حقیقی تعلیمات ہی کو ضائع اور گم کردیا مگر امت مسلمہ کے پاس اس کا دین کتاب و سنت کی مقدس اور پاکیزہ تعلیمات کی صورت میں ۔ الحمد للہ ۔ آج بھی جوں کا توں اور بغیر کسی کمی بیشی کے پورے کا پورا موجود ہے۔ اور بالکل ویسے ہی جیسا کہ حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے آیا تھا۔ سو ایسی صورت میں ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ صدق دل سے اس کی طرف رجوع کیا جائے ۔ اللہ توفیق بخشے اور تشتّت و انتشار سے اس امت کو ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔ فَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِہ ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top