Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے، کہ اے میری قوم، یاد کرو تم لوگ اللہ کے اس انعام (و احسان) کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ اس نے پیدا فرمائے تمہارے اندر کی، اور بادشاہ بنایا تم لوگوں کو، اور تمہیں وہ کچھ عنایت فرمایا جو اس نے دنیا جہاں میں کسی کو نہیں دیا،
58 نبوت کی نعمت قدرت کی سب سے بڑی نعمت : سو حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے سامنے اس نعمت عظمی کی تذکیر و یاددہانی کے طور پر ارشاد فرمایا کہ ای میری قوم یاد کرو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو کہ اس نے تمہارے اندر انبیاء مبعوث فرمائے جن کے ذریعے اس نے تم لوگوں کو نور نبوت سے سرفراز فرمایا جو کہ اللہ پاک کی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ کیونکہ نبوت و رسالت کی نعمت ہی وہ نعمت ہے جو انسان کو اس کے مقصد حیات سے آگہی بخشتی اور اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہ پر ڈالتی ہے۔ اور اس کے بغیر انسان سراسر اندھیروں میں ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ نہ اس کو اپنے مقصد وجود و تخلیق کا کوئی اتہ پتہ نہ اپنی منزل مراد کے بارے میں کوئی علم و آگہی اور نہ راہ حق و ہدایت سے متعلق کوئی علم وخبر۔ جس کے نتیجے میں وہ انسانیت کے منصہ شرف سے محروم ہو کر حیوانیت محضہ کے قعر مذلت میں جا گرتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی کہیں نیچے گر کر اسفل السافلین اور " شر البریۃ " ۔ " بدترین مخلوق " ۔ بن کر رہ جاتا ہے۔ اور اس طرح وہ اس ہولناک خسارے میں مبتلا ہوجاتا ہے جس جیسا دوسرا کوئی خسارہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اسی نے اپنی قوم سے مزید فرمایا کہ اس نے تم لوگوں کو بادشاہ بنایا۔ 59 حکومت و بادشاہی دنیاوی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے : جو کہ دنیاوی اعتبار سے سب سے بڑی عزت ہے۔ تو اس طرح اس واہب مطلق نے تم لوگوں کو دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے سب سے بڑی نعمتوں سے نوازا اور سرفراز فرمایا۔ تو عقل و نقل اور دین و فطرت سب کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ تم لوگ اپنے خالق ومالک کیلئے سراپا سپاس بن جاؤ۔ اور اس شکر وسپاس گزاری کا متقضیٰ یہ تھا اور یہ ہے کہ تم اس دین حق کو دل و جان سے اپنا لو جو اب تمہارے خالق ومالک نے حضرت خاتم الانبیاء کے ذریعے تمہارے لیے بھیجا ہے۔ اور جو خاتم الادیان کے طور پر قیامت تک کی ساری دنیا کی ہدایت و راہنمائی کیلئے بھیجا ہے کہ اب راہ حق و ہدایت اسی سے وابستہ ہے۔ سو بنی اسرائیل کو اللہ پاک نے دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے سب سے بڑی اور عظیم الشان نعمتوں سے نوازا تھا۔ جس کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ اس کی شکر گزاری میں دل و جان سے اس کے حضور جھک جاتے۔ مگر انہوں نے کفران نعمت اور ناشکری سے کام لیا۔ جس کے نتیجے میں یہ خدا کے غضب کے مستحق ہوگئے سو کفران نعمت محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 60 تذکیر نعم برائے شکر نعم :ـسو حضرت موسیٰ نے ان سے مزید فرمایا کہ اس نے تم لوگوں کو وہ کچھ دیا جو اس نے دنیا جہاں میں کسی کو نہیں دیا۔ سو اس نے تم کو فرعون جیسے ظالم کے پنجہ ظلم و ستم سے نجات و آزادی عطا فرمائی۔ اور اس کو مع اس کے لشکر کے تمہارے سامنے غرق دریا کیا۔ دریا کی طوفانی موجوں کو روک کر تمہارے لئے خشک راستے بنا دیے۔ پھر انہی لہروں کو چلتا کرکے خدائی کا دعویٰ کرنے والے اپنے وقت کے سب سے بڑے کافر اور تمہارے اس دشمن کو غرقاب کرکے ہمیشہ کیلئے فی النار والسقر کردیا۔ منّ وسلویٰ جیسی نعمتوں سے تمہیں سرفراز فرمایا۔ بادلوں کے ذریعے تمہارے لئے سائے کا انتظام فرمایا اور پتھر سے تمہارے سامنے تمہارے لئے بارہ چشمے جاری کردیئے۔ سو ان طرح طرح کے اور عظیم الشان انعامات کو یاد کرکے تم اس کے حضور دل و جان سے جھک جاؤ تاکہ اس طرح تم لوگ شکر نعمت کی سعادت سے سرفراز ہو کر دارین کی فوز و فلاح اور سرخروئی سے مشرف و سرفراز ہوسکو۔ سو اس طرح ان لوگوں کو ان مختلف اور عظیم الشان نعمتوں کی یاد دہانی سے ان کے شکر کی دعوت دی گئی ہے۔ مگر انہوں نے اس کی بجائے کفران نعمت کو اپنا کر ہلاکت و تباہی کی راہ کو اختیار کیا ۔ والعیاذ باللہ -
Top