Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ : کیوں لَا يَنْھٰىهُمُ : انہیں منع نہیں کرتے الرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما عَنْ : سے قَوْلِهِمُ : ان کے کہنے کے الْاِثْمَ : گناہ وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
کیوں نہیں روکتے ان کو ان کے مشائخ اور ان کے علماء گناہ کی بات کہنے سے، اور ان کے حرام کھانے سے (طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے) یقینا بڑے ہی برے ہیں ان کے وہ کرتوت جو یہ لوگ کر رہے ہیں2
155 گناہوں سے روکنا علماء و مشائخ کی اہم ذمہ داری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیوں نہیں روکتے ان کو ان کے علماء اور ان کے مشایخ گناہ کی بات کہنے سے۔ـ یعنی ان کو ان برائیوں سے روکنا چاہئے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ فساد بڑھتا اور پھیلتا جائے گا۔ مگر افسوس کہ یہ تغافل اور یہ مرض آج امت مسلمہ کے اندر بھی موجود ہے۔ آج اس امت میں بھی ایک بڑے طبقے کی اکثریت ایسی ہے جو علماء اور مشائخ کہلانے کے باوجود نہ صرف یہ کہ تبلیغِ حق کے اس فریضہ سے غافل ہے بلکہ وہ الٹا عوام میں پائی جانے والی شرکیات و بدعات اور دوسری طرح طرح کی منکرات کی پشت پناہی کرتے اور ان کے لئے شرعی جواز کے حیلے ڈھونڈتے ہیں۔ اور اس کے لئے کتاب و سنت کی صاف وصریح اور واضح و جلی نصوص تک کو تاویل و تحریف کے خراد پر چڑھانے سے بھی گریز نہیں کرتے جس کے مظاہر اور نمونے اہل ہویٰ کی تقریروں اور تحریروں میں یہاں اور وہاں جگہ جگہ اور طرح طرح سے ملتے ہیں۔ اور ایسی شد و مد سے ملتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ تو ایسے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے پورے ہوں تو کس طرح ؟ اور جب کو توال الٹا چور کا حامی بن جائے تو پھر چوروں، ڈاکوؤں اور جیب کتروں سے حفاظت ہو تو کیونکر ہو ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ ابو حیان کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ان علماء اور روساء پر سخت زجرو توبیخ ہے جو لوگوں کو گناہوں سے روکنے کی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ اور عبد اللہ بن مبارک نے اس بارے بادشاہوں اور علمائے سوء اور پیران سوء کو دین کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ۔ ہَلْ اَفْسَدَ الدِّیْنَ اِلَّا الْمُلُوْکُ ۔ وَاَحْبَارُسُوْئٍ وَرُہْبَانُہَا ۔ یعنی " دین کو تو بگاڑا ہے بادشاہوں نے اور علماء سوء اور امت کے راہبوں اور پیروں نے "۔ اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں اس سے بڑھ کر علماء و زہاد کیلئے سخت تنبیہ اور توبیخ کسی اور آیت میں نہیں ہے۔ اس طرح کی آیات کریمہ کے بارے میں اہل بدعت کے بعض مولوی صاحبان وغیرہ کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق صرف اہل کتاب کے پادریوں سے ہے اور بس۔ سو ان لوگوں کا یہ کہنا مردود اور اپنی ذمہ داریوں سے گریز و فرار کی کوشش کے مترادف ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ یہ لوگ ایسا کہتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اگر ان آیات کریمہ کا تعلق صرف اہل کتاب کے مولویوں، پیروں اور انکے پادریوں پروہتوں ہی سے ہوتا تو پھر انکے قرآن حکیم کی اس کتاب ہدایت و ارشاد میں ذکر وبیان کا فائدہ ہی کیا ؟ کہ یہ کوئی قصوں کہانیوں یا تاریخ و جغرافیہ کی کتاب تھوڑی ہی ہے کہ محض کہانی اور قصہ گوئی کے طور پر گزشتہ اقوام و اُمم سے متعلق یہ سب کچھ یونہی بےمقصد بیان کر دے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ پس اس کتاب ہدایت میں اہل کتاب اور ان کے احبارو رہبان اور مولویوں و پیروں کے یہ احوال بیان کرکے در اصل امت مسلمہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کی ان اور ان کوتاہیوں کی بنا پر جب ان کو یہ اور یہ بھگتان بھگتنے پڑے تو تم لوگ اس سے بچ کر رہنا۔ تاکہ تم اس برے انجام سے محفوظ رہ سکو جو کہ ان لوگوں کو بھگتنا پڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بےلاگ اور سب کیلئے یکساں ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ یہاں سے یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ بدنیتوں کے لیے محرومی ہی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ - 156 فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے تحضیض و تحریک : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیوں نہیں روکتے ان کو ان کے علماء و مشایخ ان کے حرام کھانے سے۔ یقینا بڑے ہی برے ہیں ان لوگوں کے وہ کرتوت جو یہ کر رہے ہیں۔ کہ یہ لوگ برائی پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہیں کرتے۔ جس سے معاشرے میں شر پھیلتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ ہلاکت اور تباہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتا ہے۔ سو اس ارشاد ربانی میں ان لوگوں کیلئے بڑی تحریک و تحضیض ہے کہ ان کو نہی عن المنکر کا یہ عظیم الشان فریضہ ادا کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے تاکہ معاشرے سے شر مٹے اور خیر کا دور دورہ ہو۔ اور برائیوں کی بجائے اچھائیاں فروغ پاس کیں اگرچہ اس خطاب کا اولین تعلق اہل کتاب سے ہے جن کے اندر یہ فساد و بگاڑ انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس میں بالواسطہ طور پر امت مسلمہ کے لئے بھی یہ درس عظیم ہے کہ یہ لوگ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اس اہمیت اور ضرورت کو سمجھیں اور اس عظیم الشان فریضہ کی ادائیگی کے لئے اپنی ذمہ داری کو کما حقہٗ نبھائیں ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ لما یحب ویرید وَھُوَالْہَادِی اِلٰی سَوَائِ السَّبِیْلِ-
Top