Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 93
لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَا : میں۔ جو طَعِمُوْٓا : وہ کھاچکے اِذَا : جب مَا اتَّقَوْا : انہوں نے پرہیز کیا وَّاٰمَنُوْا : اور وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک ثُمَّ اتَّقَوْا : پھر وہ ڈرے وَّاٰمَنُوْا : اور ایمان لائے ثُمَّ : پھر اتَّقَوْا : وہ ڈرے وَّاَحْسَنُوْا : اور انہوں نے نیکو کاری کی وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
کوئی گناہ (اور پکڑ) نہیں ان لوگوں پر جو (صدق دل سے) ایمان لائے، اور انہوں نے (اس کے مطابق) کام بھی نیک کئے، اس میں جو کہ انہوں نے کھا (پی) لیا (حکم حرمت سے پہلے) جب کہ وہ بچتے رہے (اس وقت کی محرمات سے) اور وہ ثابت قدم رہے اپنے ایمان پر، اور کام بھی نیک کرتے رہے، پھر وہ بچتے رہے (نئی حرام کردہ چیزوں سے) اور ثابت قدم رہے پھر بچتے رہے اور وہ نیکوکار رہے اور اللہ محبت فرماتا ہے نیکوکاروں سے،1
235 ایمان اور عمل صالح ذریعہ نجات : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کیے ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ انہوں نے کھا پی لیا ان حرام چیزوں میں سے جن کی حرمت کا حکم بعد میں نازل ہوا کہ وہ اس کے مکلف اور پابند تھے ہی نہیں۔ اس لئے نہی کا حکم نازل ہونے سے پہلے جو کچھ ہوگیا اس سے متعلق ان پر کوئی گناہ نہیں۔ سو ایمان صادق ایک عظیم الشان اور انقلاب آفریں دولت ہے جسکے بعد ہر حالت خیر ہی خیر ہے۔ اور جس کے بعد کسی بھی صورت میں ناکامی اور خسارے کا کوئی سوال نہیں بشرطیکہ ایمان سچا ایمان ہو اور بندئہ مومن اپنے ایمان کے مقتضیٰ پر صدق دل سے عمل کرتا ہو ۔ وَباللّٰہِ التوفیق لما یحبُّ ویرید وعلیٰ ما یُحِبُ ویُرِید ۔ بہرکیف ایمان کی برکت سے پچھلے تمام گناہوں کی میل دھل جاتی ہے۔ سو ایمان اور عمل صالح ذریعہ نجات اور وسیلہ فوز و فلاح ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ 236 تقویٰ تقاضائے ایمان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایمان والوں پر کوئی مواخذہ اور گرفت نہیں جبکہ وہ بچتے رہیں ان چیزوں سے جن کی حرمت کا حکم نازل ہوچکا تھا کہ مومن کی شان ہی " اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا " کی شان ہوتی ہے کہ جو حکم و ارشاد بھی اس کو اپنے خالق ومالک کی طرف سے ملے اس کو وہ بلا کسی پس و بیش اور چون وچرا کے بجائے لائے کہ اس کے ایمان و یقین کا تقاضا یہی ہے۔ اور اسی میں اس کی بہتری اور بھلائی ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی ایسی چیز پر کوئی گرفت و پکڑ نہیں ہوگی جس کے بارے میں کسی صریح ممانعت کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ شریعتِ الٰہی کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں جو حد متعین کردی گئی ہو اس کی پابندی اور اس کا احترام کیا جائے۔ پھر شریعت ہی کی طرف سے اگر اس میں کچھ اضافہ کیا جائے تو اس کو پورے صدق و اخلاص سے نبھایا جائے ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحِبُّ وَیُرِیْد ۔ سو تقوی ایمان کا اہم اور بنیادی تقاضا ہے۔ 237 تقویٰ کی عظمت و اہمیت : سو یہاں پر اس ایت کریمہ میں تقوی کا ذکر تین بار فرمایا گیا ہے جس سے تقوی کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ بعض حضرات اہل علم نے کہا ہے کہ یہاں پر پہلے تقویٰ سے مرادیہ ہے کہ وہ شرک سے بچ کر ایمان لائے ہوں۔ اور دوسرے موقع پر تقویٰ سے مرادیہ ہے کہ اس پر انہوں نے مداومت و ہمیشگی کی ہو اور وہ اس پر ثابت قدم رہے ہوں۔ جبکہ تیسرے موقع پر تقویٰ سے مراد ہے کہ وہ گناہوں سے بچ کر رہے ہوں اور انہوں نے نیک کام بھی کئے ہوں۔ سو اس اعادئہ و تکرار سے تقویٰ کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ (التسہیل لعلوم التنزیل، محاسن التاویل وغیرہ) کہ تقویٰ ہی حقیقت میں دارین کی سعادت و سرخروئی کا ضامن و کفیل ہے۔ اور اسی سے انسان طرح طرح کی عنایات خداوندی سے سرفراز ہوتا ہے۔ بہرکیف اس آیت کریمہ سے ایک طرف یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شریعت اسلامی میں احکام کا نزول بتدریج ہوا ہے اور تدریج کے اس طریقہ کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی سہولت اور ان کی بہتری کے لئے اختیار فرمایا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر گرفت و پکڑ اور مواخذہ نہیں فرمائیگا جنہوں نے اس کی بخشی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھایا۔ اور یہ تدریج عموماً تین مدارج پر رہی۔ پھر اس آیت کریمہ میں تقویٰ کا ذکر تین بار ہوا ہے۔ پہلی بار تقویٰ کے ساتھ ایمان اور عمل صالح ذکر فرمایا گیا۔ دوسری مرتبہ ایمان کا ذکر فرمایا گیا۔ اور تیسری مرتبہ احسان کا۔ سو یہاں پر تقویٰ کے تین بار ذکر کرنے سے اس کے انہی تدریجی مراتب کی طرف اشارہ فرما دیا گیا۔ 238 صفت احسان کی عظمت و اہمیت کا ذکر وبیان : سو اس سے احسان اور محسنیں یعنی نیکوکاروں کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور محسن وہ لوگ ہیں جن کی نیتیں اور ارادے بھی نیک ہوں اور عمل و کردار بھی درست۔ پس ان کو وہ ان کے اس اجر وثواب سے نوازے گا جس کے اپنے مرتبہ و شان کے مطابق یہ لوگ مستحق ہوں گے کہ وہ بڑا ہی قدر دان ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس آیت کریمہ کی شان نزول سے متعلق حضرت انس ۔ ؓ ۔ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوطلحہ ؓ کے گھر میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا کہ اتنے میں شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوگیا۔ تو آنحضرت ﷺ نے منادی کو حکم دیا کہ جا کر اس کی حرمت کا اعلان کر دے۔ ہمیں جب منادی کی آواز سنائی دی تو ابوطلحہ ؓ نے مجھے فرمایا کہ باہر جا کر دیکھو کہ یہ کیسی اور کیا آواز ہے۔ تو میں نے جا کر دیکھا اور واپس آ کر بتایا کہ اس طرح منادی شراب کی حرمت کا اعلان کر رہا ہے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ اٹھو اور اس شراب کو فورا ً گرا دو ۔ چناچہ میں نے ایسے ہی کیا اور پھر مدینے کی گلیوں میں شراب جگہ جگہ بہہ رہی تھی۔ تو اس پر بعض حضرات نے کہا کہ ہم میں سے کچھ لوگ تو اس حالت میں قتل ہوگئے کہ ان کے پیٹوں میں شراب تھی تو ان کا کیا بنے گا ؟ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی ۔ { لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ۔ اور اس میں بتادیا گیا کہ ایسے لوگوں پر کوئی گناہ نہیں۔ (بخاری کتاب المظالم والغصب و کتاب التفسیر، ترمذی کتاب التفسیر وغیرہ ) ۔ یہاں پر ایک لمحہ کے لئے رکیے اور سوچیے اور ان حضرات صحابہ کرام ۔ علیہم الرحمۃ والرضوان ۔ کی شان اطاعت و بندگی اور جذبہ تسلیم ورضا کو دیکھئے اور اس سے اندازہ کیجئے کہ کیسی انقلاب آفریں ہے ایمان و یقین کی یہ متاع بےمثال جو انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے اور اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ وہ لوگ جو شراب خانہ خراب کے ایسے رسیا اور جدی پشتی عادی تھے کہ شراب گویا ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، جب وہ نبی امی ۔ فداہ لحمی ودمی ۔ پر ایمان لائے، ان کی دعوت پر لبیک کہا، ایمان و یقین کی دولت سے سرشار ہوگئے، تو بےمثال استاذ کی بےمثال شاگردی میں یہ لوگ ایسے مثالی بلکہ بےمثال نمونے بن گئے کہ ڈھونڈے سے بھی کہیں ان کی کوئی مثال نہیں مل سکے گی۔ حرمت شراب کی ندا جونہی سنی اور تحریم خمر کا پیغام جونہی انکو ملا اور یہ آواز جونہی ان کے کان میں پڑی کہ شراب کو حرام کردیا گیا تو وہ فوراً اور بلاکسی توقف و انتظار اور بغیر کسی تسویف و تاویل کے سرتسلیمِ خم ہوگئے۔ شراب کے مٹکے ٹوٹنے لگے اور شراب خانہ خراب مدینے کی گلیوں اور نالیوں میں جابجابہنا شروع ہوگئی۔ اور اس کو ایسا ترک کیا کہ جو لوگ حکم تحریم کے نزول سے پہلے فوت ہوگئے تھے ان کے بارے میں بھی ان کو فکر دامنگیرہو گئی کہ ان کا کیا بنے گا ؟ تو کیا کوئی مثال مل سکتی ہے ایسے امتثال بےمثال کی ؟ اور اس قدر اطاعت و فرمانبرداری کی ؟ ۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ سو کتنے ظالم اور کس قدر منحوس اور بدبخت ہیں وہ لوگ جو ان قدسی صفت حضرات صحابہ کرام ؓ پر بھی زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کے ایمان و یقین میں بھی کیڑے نکالنے کی سعی مذموم کرتے ہیں اور اس بارے تشکیک پیدا کرنے کیلئے وہ طرح طرح کے پاپڑ بیلتے اور جھوٹ کے پلندے گھڑتے اور گھڑا کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ -
Top