Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 22
وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ
وَفِي السَّمَآءِ : اور آسمانوں میں رِزْقُكُمْ : تمہارا رزق ہے وَمَا تُوْعَدُوْنَ : اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے
اور آسمان (یعنی عالم بالا) ہی میں تمہاری روزی بھی ہے اور وہ سب کچھ بھی جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے
[ 18] آسمان کی نشانیوں میں دعوت غور و فکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آسمان ہی میں ہے تمہاری روزی اور وہ سب کچھ جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ یعنی بارش جس سے مردہ زمین کو زندگی ملتی ہے، اور اس میں طرح طرح کی فصلیں اور دوسری بےحد وحساب چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ نیز چناد اور سورج کے وہ عظیم الشان کرے اور دوسرے کواکب وغیرہ، جو اس ضمن میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ نیز ان ظاہری اسباب کے پردے میں جو اصل حقیقت کار فرما ہے یعنی امر ربی وہ بھی عالم بالا ہی سے آتا ہے، اور اسی کے مطابق اسباب و مسباب کا یہ سارا نظام چلتا ہے، فحلت قدرتہٗ وعز شانہٗ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اگر تم لوگ غور و فکر سے کام لو تمہیں نظر آئے گا کہ یہ آسمان جو آئے دن تمہارے سامنے زندگی و موت، بعث بعد الموت اور جزا و سزا کی شہادت دیتا رہتا ہے، اسی آسمان کے اندر سے تمہاری روزی آتی ہے، اسی کے اندر سے تمہارے طرح طرح کے سامان ہائے زیست پیدا ہوتے ہیں۔ اور اسی کے اندر سے جب وہ چاہے، نافرمانی اور سرکشی کرنے والوں پر عذاب برسا دیتا ہے، نہ رحمت کے لئے اسے کوئی الگ اہتمام کرنا پڑتا ہے اور نہ نقمت کیلئے کوئی الگ، بلکہ رحمت کے سمان بھی یہیں سے کئے جاتے ہیں، اور وقت پہنچنے پر عذاب کے کوڑے بھی اس سے برسادئے جاتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ تو جس کے جمال اور جلال کی یہ شانیں تم لوگ خود دیکھتے ہو اور ہمیشہ دیکھتے ہو تو پھر اس کی قدرت سے تم لوگ آخر اس بات کو کیوں بعید سمجھتے ہو کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکتا ہے اور زندہ کرے گا ؟ سبحانہ وتعالیٰ ، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، جل وعلا۔ [ 19] تمہارے وعدوں کا سامان بھی آسمان میں : سو ارشاد فرمایا گیا اور وہ سب کچھ بھی جس کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ یعنی جنت بھی اور ثواب و عقاب بھی کہ یہ سب کچھ عالم بالاہی میں مقدر ہے، پس تم لوگ دنیاء دوں کے ظاہری اسباب میں ہی الجھ کر نہ رہ جایا کرو، بلکہ اصل نظر اس مسبوب الاسباب پر رکھا کرو جس کے قبضہء قدرت میں سب کچھ ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اسی وحدہٗ لاشریک کے امر اور حکم و ارشاد سے ہوتا ہے، سو جس خدائے پاک کی رحمت اور نعمت کی دونوں شانیں تم لوگ اس آسمان میں دیکھتے ہو کہ اس سے تمہارے لئے رزق کا سامان بھی ہوتا ہے اور اسی سے طرح طرح کے عذاب بھی آتے ہیں، تو پھر تم لوگ آخر یہ یقین کیوں نہیں کرتے کہ وہ خیر اور شر کے معاملے میں بےتعلق یا غیر جانبدار نہیں، بلکہ وقت آنے پر وہ بروں کو لازماً سزا دے گا اور نیکوں کو جزا اور اسی کا فیصلہ قیامت کے روز ہوگا لہٰذا قیامت کا آنا لازمی ہے تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور علی وجہ التمام والکمال پورے ہو سکیں اور اس طرح آسمانوں اور زمین کی اس حکمتوں بھری کائنات کی ایجادو تخلیق اور اس کے مقصد وجود کی تکمیل ہو سکے، ورنہ سار اکارخانہ قدرت عبث اور بےمقصد قرار پاتا ہے۔ جو اس کی صفت عدل و حکمت کے خلاف ہے۔
Top