Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 25
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ١ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ
اِذْ دَخَلُوْا : جب وہ آئے عَلَيْهِ : اس کے پاس فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا سَلٰمًا ۭ : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ ۚ : سلام قَوْمٌ : لوگ مُّنْكَرُوْنَ : ناشناسا
جب کہ وہ آپ کے پاس آئے پھر انہوں نے آپ کو سلام کیا ابراہیم نے بھی سلام کا جواب دیا (اور کہا کہ) کچھ اوپرے سے لوگ ہی
[ 22] پیغمبر (علیہ السلام) عالم غیب نہیں ہوتے : سو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کچھ کچھ اوپر سے لوگ ہیں۔ ممکن ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات اپنے دل میں کہی ہو یا اپنے گھر والوں سے کہی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ فرشتوں ہی سے کہی ہو، کہ صاحب ہم نے پہچانا نہیں نہیں، کچھ اوپر سے حضرات لگتے ہیں، کیا آپ ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے ؟ جیسا کہ آج کل بھی تعارف کی غرض سے اس طرح کے الفاظ کہہ دینے کا رواج موجود ہے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے، ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو انہیں پہچاننے میں کوئی دقت و دشواری پیش نہ آتی، اور جب پیغمبر علم غیب نہیں ہوتا اور پیغمبر بھی حضرت ابراہیم خلیل علی نبینا وعلیہ لصلوۃ والسلام جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر کو جو کہ ابو الانبیاء اور جد الانبیاء ہونے کی عظیم امتیازی صفت اور شان رکھتے ہیں، تو پھر اور کسی کے عالم غیب ہونے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ پس اہل بدعت کا یہ عقیدہ رکھنا کہ انبیاء و اولیاء عالم غیب ہوتے ہیں، سراسر غلط، بےبنیاد اور شرکیہ عقیدہ ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم، علم غیب خاصہ خداوندی ہے وہی اپنی مشیئت اور مرضٰ کے مطابق جس کو اور جو اور جتنا چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، عالم غیب بہرحال اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے اس کی اس صفت میں کوئی بھی دوسری ہستی نہ شریک ہے، نہ ہوسکتی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ والحمدللّٰہ جل وعلا، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، ملہم الصدق والصواب، والھادی الی الحق الرشاد۔ [ 23] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے آداب مہمان نوازی کا ایک نمونہ و مظہر : کہ آپ (علیہ السلام) اپنے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کرنے کے لئے چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور اس طور پر کہ اپنے مہمانوں کو خبر بھی نہ ہونے دی تاکہ وہ کہیں انکار نہ کرلیں۔ بہرکیف اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) چپکے سے گھر کے اندر تشریف لے گئے، کیونکہ آیت کریمہ میں " زاغ " کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی آتے ہیں اس طرح آہستہ اور چپکے سے جانا کہ کسی کو خبر نہ ہونے پائے، چناچہ عربی محاورہ میں کہا جاتا ہے زاع الثغلب روغا و رو غانا یعنی لومڑی آہستہ اور چپکے سے اس طرح نکل گئی کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلنے دیا۔ [ الفتوحات الالہیہ، وغیرہ ] ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا اس لیے کیا کہ کہیں مہمانوں کو پتہ نہ چل جائے کہ یہ ہمارے لئے کسی کھانے وغیرہ کا انتظام کرنے جا رہے ہیں، اور اس طرح وہ انکار کرنے نہ لگیں، جیسا کہ عام طور پر ایسے موقع پر ہوتا ہے، سو اس سے آنجناب کی شان مہمان نوازی کا پتہ بھی چلتا ہے، اور آداب مہمان نوازی کا بھی کہ اول تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے سلام و کلام سے ان کی آؤ بھگت کی، اور پھر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) فوراً ہی اور چپکے سے ان سے نظر بچا کر اندون خانہ کی طرف تشریف لے گئے تاکہ ان کیلئے ضیافت کا سامان کریں اور نظر بچا کر اسلئے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ آپ (علیہ السلام) کا یہ اہتمام ضیافت ان معزز مہمانوں کی طبیعت پر بار ہو، کیونکہ کریم النفس اور شریف و فیاض میزبان کی میزبانی اور اس کی مہمان نوازی کا طریقہ اور اس کی شان یہی ہوتی ہے کہ ضیافت کا اہتمام اس طور پر کیا جائے کہ مہمان کو اس کے تکلف کا احساس نہ ہو، کہ یہ چیز بھی اس کیلئے بار خاطر ہوسکتی ہے۔ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ما تمّر اللیالی والایام، وارزقنا اتباعھم علی سبیل التابید والدوام۔
Top