Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 45
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّ مَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَۙ
فَمَا اسْتَطَاعُوْا : تو نہ ان کو استطاعت تھی مِنْ قِيَامٍ : کھڑے ہونے کی وَّمَا كَانُوْا : اور نہ تھے وہ مُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
سو اس کے بعد نہ تو ان میں کھڑے ہونے کی کوئی سکت تھی اور نہ ہی اپنے بچاؤ کی کوئی طاقت (و قوت)
[ 42] عذاب یافتہ قوم کی بےبسی کی تصویر کا ذکر وبیان : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ عذاب آنے پر ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ نہ ان میں کھڑے ہونے کی کوئی سکت تھی اور نہ ہی اپنے بچاؤ کی کوئی طاقت ووقت، سو اس سے اس عذاب یافتہ قوم کی بےبسی کی تصویر پیش فرما دی گئی جس کو اپنے قوت پر بڑا ناز اور گھمنڈ تھا، کہ اب وہ لوگ کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے، کہ اٹھ کر کہیں بھاگ جاتے، اور عذاب سے بچ جاتے، یعنی وہ بالکل عاجز اور بےبس ہو کر رہ گئے تھے، [ منقول عن الحسن (رح) وھو تفسیر حسن، جامع البیان ] سو اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بھاگ نکلنا کسی کے لئے ممکن نہیں، " والعیاذ باللّٰہ العظیم " روایات کے مطابق جب انہوں نے وہ کڑک سنی تو ان پر ایسی ہولناک دہشت اور کپکی طاری ہوگئی کہ وہ کھڑے بھی نہ رہ سکے، بلکہ اوندھے منہ زمین پر گرپڑے، جیسا کہ سورة اعراف میں ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ { فاخذتھم الرجفۃ فاصبحوا فی دارھم جٰثمین } [ الاعراف : 78 پ 8] " یعنی آخرکار آپکڑا ان کو اس ہولناک زلزلے اور کپکپی طاری کردینے والے عذاب نے جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے "، اور جس قوت اور ترقی پر ان کو ناز تھا وہ ان کے کچھ کام نہ آسکی، اور نہ وہ خود کوئی بدلہ لے سکے، اور یہ چیز کوئی انہی لوگوں کے ساتھ خاص نہیں تھی بلکہ عذاب یافتہ قوموں کا ہمیشہ یہی حال رہا جو آج تک باقی اور برقرار ہے چناچہ آج بھی جب کہیں زلزلہ وغیرہ کا کوئی عذاب آتا ہے تو مادی ترقی اور مادی وسائل کی فراوانی کے بلند بانگ دعو وں کے باوجود ایسے لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ وہ کھڑے ہونے کی کوئی سکت رکھتے ہیں اور نہ کسی بدلے اور مقابلے کا کوئی سوال ہوتا ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، سو کفر و تکذیب کا آخری انجام بہرحال ہلاکت اور تباہی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہنا چاہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے اور شیطان کس کو اس دھوکے میں مبتلا نہ کرنے پائے کہ صاحب ! یہ تو پرانے وقتوں کی باتیں ہیں اب تو دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے اور اب سائنس بہت آگے نکل گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس اطرح کا کوئی مغالطہ کسی کو دھوکے میں نہ ڈالنے پائے کہ انسان بہرحال اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ۔ والعیاذ باللّٰہ۔ کے سامنے آج بھی ویسے ہی عاجز و بےبس ہے جس طرح کہ صدیوں پہلے تھا چناچہ آج بھی زلزلوں، سیلابوں اور طوفانوں وغیرہ کی صورت میں آنے والے مختلف عذابوں کے سامنے یہ عاجزی اور بےبسی کی اس طرح تصویر بنا رہتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔
Top