Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 50
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
فَفِرُّوْٓا اِلَى : پس دوڑو طرف اللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنِّىْ لَكُمْ : بیشک میں تمہارے لیے مِّنْهُ : اس کی طرف سے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا ہوں مُّبِيْنٌ : کھلم کھلا
پس تم سب دوڑو اللہ کی طرف (اے لوگو ! ) بیشک میں تم سب کے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں
[ 49] اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑنے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پس دوڑو تم سب اللہ کی طرف اے لوگو ! " ایمان و اطاعت کے ذریعے۔ پس کفر و شرک اور بغاوت و معصیت سے بھاگ کر ایمان و اطاعت کے دامن کی پناہ میں آجاؤ، تاکہ اس طرح تم اس کے عذاب و عقاب سے بچ کر سعادت و نجات سے ہم کنار ہونے کے لئے کس قدر صاف ستھرا اور کتنا واضح و پاکیزہ درس دیا گیا ہے، مگر دنیا ہے کہ اس سے غافل و لاپروہ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ یہاں پر یہ امر واضح رہے کہ عذاب سے بچنے اور اپنی آخرت کو بنانے کیلئے تو بھاگنے اور دوڑنے کا حکم دیا گیا ہے { ففروآ الی اللّٰہ }۔ مگر دنیاوی کمائی کے لئے صرف چلنے پھرنے کا۔ { فامشوا فی مناکبھا } سو اس سے یہ اہم اور بنیادی درس ملتا ہے کہ دنیاوی زندگی کے لئے سعی و کوشش و بقدر ضرورت و کفایت ہو کہ یہ دنیا اور اس کی ہر چیز بہرحال فانی اور عارضی ہے جب کہ اصل محنت آخرت اور وہاں کی سدا بہار نعمتوں کے لئے ہو کہ وہاں کی اندگی اور اس کی سب نعمتیں ابدی اور دائمی ہیں۔ مگر افسوس کہ آج کے مسلمان کا حال برعکس ہے، اس کی ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ اور سعی و کوشش صرف دنیا اور اس کے متاع فانی اور حطام زائل ہی کیلئے گویا بالکل وقف ہو کر رہ گئی ہے، الا ماشاء اللّٰہ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو یہاں پر { ففروآ } کی فاء تفریحیہ سے واضح فرما دیا گیا کہ جب آخرت ایک قطعی حقیقت ہے اور اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں، دنیا کا وجود بذات خود اس کے وجود وقوع کا متقاضی ہے، اور اس نے اس دنیاوی زندگی کے خاتمے کے متصل بعد بہرحال واقع ہو کر رہنا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج کے دن کے خاتمے کے متصل بعد آنے والے کل کا وقوع پذیر ہوجانا لازمی اور قطعی ہے اور جب دنیا کی فانی زندگی کے مقابلے میں آخرت کی وہ زندگی دائمی اور ابدی ہے اور جب دنیاوی زندگی کا اصل اور حقیقی مصرف ہی آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی کا اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنا کر اس کیلئے کوشش کرنا تو ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اپنی آخرت کو بنانے سنوارنے کے لئے دوڑا جائے کہ اصل اور حقیقی کامیابی وہیں کی کامیابی ہے جو کہ ابدی اور سدا بہار کامیابی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الی سواء السبیل، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، فی کل انٍ وحین۔ [ 50] پیغمبر کا کام انذار و تبلیغ اور بس : سو ارشاد فرمایا گیا اور پیغمبر کی زبان سے ارشاد فرمایا گیا کہ میں تم سب کو اس کی طرف سے خبردار کرنے والا ہوں کھول کر حق اور حقیقت کو۔ یعنی توحید خداوندی کے ان عقلی دلائل کے علاوہ وہ جو کہ اس کی اس وسیع کائنات میں چار سو پھیلے بکھرے پڑے ہیں، میں بھی اس کے نمائدہ و رسول کی حیثیت سے تم لوگوں کو صاف طور پر اور کھول کر خبردار کرنے کے لئے موجود ہوں، تاکہ تمہارے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ سو میں اس وحدہٗ لاشریک کی طرف سے تم سب کے لئے " نذیر مبین " بن کر آیا ہوں، تاکہ میں قیام قیامت سے پہلے دنیا کو اس کے خطرات و احوال سے پوری طرح خبردار کروں، تاکہ اس کے بعد تمہارے لئے کسی عذر اور معذوری کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے کہ تمہارے پاس کو یہ بشیر و نذیر نہیں آیا تھا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { یاہل الکِتٰب قد جآء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ من الرسل ان تقولوا ما جآء نامن م بشیرٍ ولا نذیر فقد جآء کم بشیر و نذیر ط واللّٰہ علی کل شیئٍ قدیر } [ المائدہ : 19 پ 6] یعنی کہیں تم لوگ یوں نہ کہنے لگو کہ ہمارے پاس نہ کوئی بشیر آیا نہ کوئی نذیر۔ سو اب تمہارے پاس ایک عظی الشان بشیر بھی آگیا اور نذیر بھی۔ جس نے حق کو تمہارے لئے پوری طرح واضح کردیا، لہٰذا اب تمہارے لئے کسی عذر کی کوئی گنجائش نہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال، وسوئِ وانحراف، یاذالجلال والاکرام۔
Top