Tafseer-e-Madani - At-Tur : 14
هٰذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ
هٰذِهِ النَّارُ : یہ ہے آگ الَّتِيْ : وہ جو كُنْتُمْ : تھے تم بِهَا تُكَذِّبُوْنَ : اس کو تم جھٹلاتے
(اور تحقیر و تذلیل مزید کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ لو) یہ ہے وہ آگ جس کو تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے
[ 12] منکرین و مکذبین کی تزلیل کے ایک منظر کا ذکر وبیان : سو اس سے منکرین و مکذبین کی تحقیر و تذلیل اور ان کی تانیب و توبیخ کا ایک نہایت ہی ہولناک منظر پیش فرمایا گیا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس دن ان کو دھکے مار مار کرلے جایا جائے گا، دوزخ کی طرف اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کو تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے۔ یعنی اپنی دنیاوی زندگی میں۔ اور ایسا کہنا ان کی تحقیر و تذلیل اور تقبیح و تفضیح کیلئے ہوگا۔ ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں سے اور ان کی پیشانیوں کو ان کے قدموں سے باندھ کر۔ [ ابن جریر، ابن کثیر، بحر، مدارک، بیضاوی وغیرہ ] " دَعَ " کے معنی نہایت شدت اور نفرت کے ساتھ دھکے دینے کے ہیں۔ اور پھر " دَعاً " سے اس کی مزید تاکید فرما دی گئی۔ سو اس طرح ان کی تذلیل در تذلیل ہوگی، جو اصل میں بدلہ ہوگا ان کے اس کبر و غرور اور عناد و اسکتبار کا جس کی بناء پر یہ لوگ دنیا میں حق و ہدایت کے مکذب و منکر اور اس سے منحرف رہے تھے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو آج تو یہ منکر لوگ اپنی دل لگیوں اور سخن سازیوں میں مست و مگن اور حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں، لیکن اس روز ان کو اس ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، والعیاذ باللّٰہ۔ یہاں پر { یُدعون } کے مضارع کی تاکید کے لئے { دَعاً } کے مصدر کو ذکر فرمایا گیا ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ آج تو یہ لوگ اس طرح لاپرواہی اور غفلت کے ساتھ نچنت اور بےفکر ہو کر اس طرح کی دل لگیوں اور خود فریبیوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس روز ان کو ایسی ہولناک ذلت و رسوائی سے سابقہ پیش آنے والا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا اکرم الاکرمین، [ 13] منکرین و مکذبین کی تزلیل و تقضیح قول و فعل دونوں سے۔ والعیاذ باللّٰہ : ان آیات کریمات سے واضح فرما دیا گیا کہ اس روز منکرین و مکذبین کی تحقیر و تذلیل قول اور فعل دونوں سے ہوگی، چناچہ اوپر ان کی فعلی تذلیل و تحقیر کا ذکر اور بیان فرمایا گیا کہ ان کو اس روز دھکے مار مار کر دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کی طرف لے جایا جائے گا کہ یہ ہے وہ آگ جس کو تم لوگ جھٹلایا کرتے تھے۔ پس اب تم بتاؤ کیا یہ جادو ہے ؟ جیسا کہ تم لوگ دنیا میں حق و ہدایت کی دعوت کے جواب میں کہا کرتے تھے اور اس کو جادو کہہ کر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اور حق کو اپنانے کی بجائے تم اس سے اور زیادہ بدکتے اور دور ہوا کرتے تھے، اور اللہ کے رسول ﷺ جن تم کو اس انجام سے ڈراتے اور خبردار کرتے تھے تو تم لوگ خود اپنے آپ کو اور اپنے عوام کو نچنت اور بےفکر رکھنے کیلئے قرآن کے انذار کو الفاظ کی جادو گری قرار دیا کرتے تھے، اور تم مست اور مگن ہو کر کہا کرتے تھے کہ زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے اور بس، جس نے اس میں عیش کرلی اس نے عیش کرلی، وغیرہ وغیرہ، سو اب تم بتاؤ کہ یہ جادوگری ہے یا حقیقت ؟ اب تمہیں یہ حقیقت نظر آرہی ہے یا کہ نہیں ؟ یا تم اب بھی ویسے ہی اندھے ہو، جیسے دنیا میں تھے اور جیسا کہ تم کو دنیا میں کچھ دکھتا اور سوجھتا نہیں تھا ؟ سو اس سے ان بدبختوں کے دل و دماغ پر جو گزرے گی اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال اور ہر اعتبار سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top