Tafseer-e-Madani - At-Tur : 19
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓئًۢا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۙ
كُلُوْا : کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو هَنِيْٓئًۢا : مزے سے بِمَا : بوجہ اس کے جو كُنْتُمْ : تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
(اور ان کے لطف و سرور کو مزید دوبالا کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ) کھاؤ پیو تم اپنے ان اعمال کے صلہ (و بدلہ) میں جو تم کرتے رہے تھے (اپنی فرصت حیات میں)
[ 21] جنتیوں کے لئے عمدہ اور خوشگوار کھانے پینے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہا جائے گا اب کھاؤ پیو تم لوگ نہایت عمدہ اور خوشگوار کھانا پینا۔ اور ایسا کہ نہ اس کے لئے کمانے اور محنت کرنے کی ضرورت، اور نہ ختم ہونے اور چھن جانے کا کوئی خطرہ، اور نہ ہی کسی خرابی اور بدہضمی وغیرہ کا کوئی خوف و اندیشہ و خوف۔ سبحان اللّٰہ !۔ کیا کہنے جنت کی ان نعمتوں کے اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ سو ان کو رب کریم کی طرف سے یہ بشارت دی جائے گی کہ اب تم عیش و آرام اور سکون و راحت سے کھاؤ پیو جنت کی ان نعمتوں میں سے، بغیر کسی تکدرو پریشانی اور بدون کسی تعب اور مشقت کے۔ نہ اس سے کوئی ضرر و نقصان لاحق ہوگا اور نہ ہی اس میں کسی نقص و کمی کا کوئی خدشہ و اندیشہ ہوگا۔ " ھنیئی " فعیل کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے اور اس کے معنی اصل میں راس آنے والی چیز کے ہیں، اور یہاں پر یہ مصدر محذوف کی صفت ہے۔ جملہ دراصل اس طرح ہے " کلوا واشربوا اکلا وشربا ھنیئا " یعنی ایسا کھانا پینا جو ہر لحاظ سے عمدہ اور خوشگوار ہوگا، اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین، [ 22] جنت کے اپنے اعمال کا صلہ وثمرہ ہونے کا مطلب ؟: سو اس سے اہل جنت کیلئے ایک خوشکن اعلان کا ذکر فرمایا گیا کہ جنت تمہارے اپنے اعمال کا صلہ و بدلہ ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کھاؤ پیو خوشگوار کھانا اور پینا اپنے ان اعمال کے صلہ و بدلہ میں جو تم اپنی دنیاوی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ سو یہ اعلان ان کی خوشی کو دوبالا کرنے کیلئے فرمایا جائے گا۔ جس طرح دوزخیوں کو ایسی باتیں سنائی جائیں گی جن سے ان کے دکھ اور عذاب میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح اہل جنت کو ایسی باتوں سے نوازا جائے گا جن سے ان کا سرور دوبالا ہوتا جائے گا، اور جنت کو اہل جنت کے اعمال کا بدلہ دینا بھی ازراہ کرم ہوگا، ورنہ انسان کے سارے اعمال ملا کر ان نعمتوں کا بھی بدلہ نہیں بن سکتے، جن سے وہ اس دنیا میں فائدہ اٹھاتا ہے، چہ جائیکہ وہ جنت کا عوض بن سکیں، وہ تو محض اس اکرام الاکرمین کا کرم اور اس کا احسان ہوگا، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو جنت اور اس کی نعمتوں کو اہل ایمان کے اعمال کا بدلہ قرار دینا اس مالک الملک کا ایک اور کرم اور احسان ہوگا، جس سے وہ اپنی شان کریمی کی بناء پر اہل جنت کو نوازے گا، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو جس طرح وہ خالق کل اور مالک مطلق خود بےمثل اور بےمثال ہے اسی طرح اس کا ہر کرم اور ہر انعام بھی بےمثل اور بےمثال ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللّٰہم فعاملنا بما انت اہلہٗ ، ولا تعاملنا بما نحن اہلہٗ یا ذا الجلال والاکرام، تبارکت وتعالیت، نستغفرک ونتوب الیک۔ سو ایمان صحیح اور عمل صالح دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے پس ہمیشہ ایمان و یقین اور عمل و کردار کے اسی سرمائے کے حصول اور اسی کی حفاظت کی دھن میں لگے رہنا چاہیے وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ السبیل بکل حال من الاحوال، [ 23] دنیاوی زندگی کی آخرت کی کمائی کی فرصت : سو حضرت حق جل مجدہٗ کی طرف سے اس خوش کن اعلان میں فرمایا جائے گا کہ یہ بدلہ ہے تمہارے ان اعمال کا جو تم لوگ اپنی دنیاوی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ اپنی آخرت کو بنانے، سنوارنے اور اپنے رب کی رضا کو حاصل کرنے کیلئے۔ سو اہل ایمان آج دنیا میں جو نیک عمل کرتے ہیں، وہ اپنے ہی دائمی آرام اور حقیقی سعادت سے سرفرازی کے لئے کرتے ہیں۔ چناچہ حضرت ربیع بن خیثم کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے جب ایک مرتبہ پوری رات عبادت و بندگی میں گزاری، تو ان سے کسی نے کہا " اتعبت نفسک " یعنی آپ نے تو اپنے آپ کو تکلیف دے دی، تو انہوں نے جواب میں کہا " راح تھا اطلب " یعنی میں نے اپنی جان کے آرام و راحت ہی کے لئے ایسے کیا، [ تفسیر المراغی، وغیرہ ] سو انسان اس دنیا میں جو بھی کوئی کام کرتا ہے وہ اپنے بھلے یا برے کے لئے کرتا ہے، کہ اس کا نفع و نقصان خود اسی کو پہنچے گا، نیک اعمال کا بدلہ جنت کی عظیم الشان اور سدا بہار نعمتوں کی شکل میں ملے گا، اور برائی کا دوزخ کی صورت میں، والعیاذ باللّٰہ، بہرکیف جنتیوں کو رب کریم کی طرف سے اس بشارت سے نوازا جائے گا کہ اب لوگ تم غل و غش کھاؤ پیو اپنے اعمال کے بدلے میں، نہ تمہیں اس سے کوئی ضرر لاحق ہوگا، اور نہ اس میں کوئی کمی واقع ہوگی، اور نہ ہی تمہیں اس سے کوئی دکھ جھیلنا پڑے گا، اللہ نصیب فرمائے آمی۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دنیاوی زندگی دراصل آخرت کی کمائی اور نعیم جنت سے سرفرازی کا موقع اور اس کی فرصت ہے۔ اللہ حیات دنیا کی اس فرصت اور اس کا ایک ایک لمحہ اپنی رضا کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین،
Top