Tafseer-e-Madani - At-Tur : 38
اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْهِ١ۚ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍؕ
اَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ : یا ان کے لیے کوئی سیڑھی ہے يَّسْتَمِعُوْنَ فِيْهِ ۚ : وہ غور سے سنتے ہیں اس میں (چڑھ کر) فَلْيَاْتِ : پس چاہیے کہ لائے مُسْتَمِعُهُمْ : ان کا سننے والا بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : کھلی دلیل
کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ لوگ (عالم بالا کی باتیں) سن لیتے ہیں ؟ تو لے آئے ان کا سننے والا کوئی کھلی سند
[ 47] منکرین و مشرکین کے زعم باطل پر ایک ضرب کاری : سو ان کے اس زعم باطل کی تردید کے لئے کہ آخرت ہوئی بھی تو یہ وہاں پر بھی عیش کریں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس ذہنیت کے لوگوں کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے۔ { ولئن اذقنہ رحمۃً منا من م بعد ضرآء مستہ لیقولن ھذا لی لا ومآ اظن الساعۃ قائمۃً لا ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہٗ للحسنی ج فلننبئن الذین کفروا بما عملوا ز ولندیقنھم من عذابٍ غلیظ۔ [ حم السجدۃ : 50 پ 25] یعنی اگر مجھے میرے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقینا اس کے یہاں بھی میرے لئے اچھائی ہی ہوگی۔ سو ایسے لوگوں کے ایسے زعم باطل کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس کے ذریعے یہ سنتے ہوں ؟ جس کی وجہ سے ان کو قرآنی ہدایت کی ضرورت ؟ اور ظاہر ہے کہ ایسی کوئی سیڑھی بھی نہیں جس کے ذریعے یہ سنتے ہوں ؟ جس کی وجہ سے ان کو قرآنی آیات کی ضرورت نہیں ؟ اور ظاہر ہے کہ ایسی بھی کوئی صورت نہیں، تو پھر یہ لوگ ہدایت قرآنی سے مستغنی اور بےنیاز ہو کس طرح سکتے ہیں ؟ اور یہ کس طرح اس سے اس قدر بےفکر اور نچنت ہو کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی آخرت وغیرہ ہوئی بھی تو وہاں بھی بالاتری انہی کی ہوگی، اور ان کی خود ساختہ سرکاریں ان کو وہاں چھڑالیں گی، وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ سب اوہام و ظنون اور من گھڑت و بےبنیاد خیالات ہیں جن کو ان لوگوں نے اپنا رکھا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ لوگ اپنے اس خود ساختہ جال میں خود پھنسے ہوئے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال۔ [ 48] منکرین کی تعجیز و بےبسی کا اظہار وبیان : سو منکرین کے مذکورہ بالا زعم باطل کی تردید اور ان کی تعجیز کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ لے آئے ان کا سننے والا کوئی کھلی سند۔ جس سے ان کے اس دعوے کی تصدیق ہو سکے۔ جیسا کہ حضرت محمد ﷺ اپنے دعویٰ پر قطعی دلائل پیش فرما چکے ہیں۔ اور جب ایسی کوئی سند ان کے پاس نہیں اور نہیں ہوسکتی، تو پھر آخر یہ انکار حق پر کیوں اڑے ہوئے ہیں ؟ بہرکیف ان کی تعجیز و تحقیر کے لئے ان سے فرمایا گیا کہ اگر ان کے پاس ایسی کوئی کتاب ہے تو یہ اس کو پیش کریں، منکرین کے ضمیروں پر دستک دینے کے لئے یہی بات سورة القلم میں پوری وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمائی گئی ہے۔ سو وہاں پر ارشاد فرمایا گیا۔ { ام لکم کتب فیہ تدرسون۔ ان لکم فیہ لما تخیرون۔ ام لکم ایمان علینا بالغۃ الی یوم القیٰمۃ ان لکم لما تحکمون۔ سلہم ایہم بذٰلک زعیم۔ ام لہم شرکائُ ج فلیاتوا بشرکائھم ان کانوا صدقین۔ } [ القلم : 37-41] یعنی " کیا تم لوگوں کے لئے کوئی ایسی کتاب ہے جس میں تم لوگ پڑھتے ہو کہ تم کو وہی کچھ ملے گا جو تم خود پسند کرو ؟ یا تم لوگوں کیلئے ہمارے ذمے قیامت تک پہنچنے والی کوئی ایسی قسمتیں ہیں کہ تم لوگوں کو یقینا وہی کچھ ملے گا جس کا فیصلہ تم خود کرتے ہو ؟ ان سے پوچھو کہ کون ہے ان باتوں کا ذمہ دار ؟ یا ان کے لئے کوئی ایسے شریک ہیں ؟ جو ان کو یہ کچھ دلواس کیں۔ سو یہ لے آئیں اپنے ان شریکوں کو اگر یہ سچے ہیں اپنے اس دعوے میں " مگر کہاں اور کیسے ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ جل وعلا من کل سوئٍ وزیغ
Top