Tafseer-e-Madani - An-Najm : 10
فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ : تو اس نے وحی کی اس کے بندے کی طرف مَآ اَوْحٰى : جو اس نے وحی کی۔ وحی پہنچائی
تب اللہ نے وحی بھیجی اپنے بندے کی طرف جو کچھ وحی آپ کو فرمانا تھی
[ 12] اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے کی طرف وحی کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تب اللہ نے وحی بھیجی اپنے بندے کی طرف جو وحی بھیجنا تھی۔ دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تب جبرائیل نے اللہ کے بندے پر وحی فرمائی، مآل دونوں کا بہرحال ایک ہی ہے کہ بندے تو آپ ﷺ بھی بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کے تھے، جس طرح کہ دوسرے تمام بندے اسی کے بندے ہیں، اور وحی اللہ پاک ہی کی طرف سے آتی تھی، اور حضرت جبریل امین کے واسطے سے ہی آتی تھی، سو اللہ پاک نے اپنے بندہئِ خاص امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر سید الملائکہ حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے وحی فرمائی جو وحی آپ کو فرمانا تھی اور اما اوحی کا ابہام تعظیم و تفحیم کیلئے ہے، سو جب جبرئیل امین حضور ﷺ کے اس قدر قریب پہنچ گئے تب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی طرف وحی فرمائی۔ سو یہ وحی بھی بےمثال کہ یہ کلام ہے رب العالمین کا اور جس فرشتے کے ذریعے فرمائی گئی وہ بھی بےمثال یعنی جبریل امین (علیہ السلام) جو کہ نوریوں کے سردار اور ان کے امام و پیشواء ہیں اور اس کیلئے جو اہتمام فرمایا گیا وہ بھی بےمثال۔ اور جس ہستی پر اس وحی کو نازل فرمایا گیا وہ بھی بےمثال۔ یعنی حضرت محمد ﷺ جو کہ افضل الخلائق سید البشر اور حضرات انبیاء و رسل کے امام و پیشواء ہیں علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔ سو ایسا عظیم الشان کلام نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے فالحمد للہ الذی شرفنا بھذا الکتاب المبارک المجید وبالایمان بہ والاشتغال، اللہم فثبتا علیہ وبارک لنا فیہ بہرکیف اس سے اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے کی طرف وحی بھیجنے کا بھی ذکر فرما دیا گیا اور وحی خداوندی کی شان کا اظہار و اعلان بھی۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کچھ وحی آپ کو فرمانا تھی۔ سو یہ ابیام تعظیم و تفخیم کے لئے ہے جیسا کہ سب مفسرین کرام لکھتے ہیں پس اہل بدعت کا یہ کہنا کہ یہ خدا و رسول کے درمیان اسرار ہیں جن پر ان کے سوا کسی کو اطلاع نہیں، اور یہ کہ اللہ نے اس راز کو مخفی رکھا وغیرہ تو یہ سب من گھڑت باتیں اور خود ساختہ مفروضے ہیں، جن کا قرآن و سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ قرآن تو صاف کہتا ہے۔ { بلغ ما انزل الیک من ربک } [ المائدۃ :67] ۔ [ پیغمبر ! جو بھی کچھ آپ کی طرف اتارا گیا ہے آپ اس سب کو جوں کا توں آگے پہنچا دیں ] سو یہاں کلمہء ما استعمال ہوا ہے جو کہ عموم اسی کے لئے آتا ہے اور اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، الاّ یہ کہ کوئی ایسا قرینہء صارفہ پایا جائے جو اس کے خلاف ہو، مگر یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، سو پیغمبر پر جو بھی کچھ وحی ان کے رب سے فرمائی گئی آپ ﷺ نے اس کو بلاکم وکاست آگے پہنچا دیا، کیونکہ آپ ﷺ اپنے رب سے اسی کے پابند اور مامور تھے، چناچہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جو کوئی تم سے کہے کہ حضور ﷺ نے وحی کا کچھ چھیا لیا تھا یا مخفی رکھا تھا تو اس نے یقینا بڑا جھوٹ بولا، پھر آپ ﷺ نے " یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک " [ الایۃ ] کی یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی [ ابن کثیر وغیرہ ] بہرکیف " ما اوحی " کا یہ ابہام تعظیم تفحیم کے لئے ہے، کہ وہ وحی بڑی ہی عظمت شان والی تھی [ روح، مدارک، محاسن، اور جامع وغیرہ ] یعنی وہ وحی اس قدر عظیم الشان تھی کہ اس کی عظمت بیان سے باہر تھی۔ بس اس کی عظمت کا اندازہ کرنا کسی بندے کے بس میں نہیں اس عظمت کو اللہ پاک ہی جان سکتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top