Tafseer-e-Madani - An-Najm : 23
اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىؕ
اِنْ هِىَ : نہیں وہ اِلَّآ اَسْمَآءٌ : مگر کچھ نام ہیں سَمَّيْتُمُوْهَآ : نام رکھے تم نے ان کے اَنْتُمْ : تم نے وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے آباؤ اجداد نے مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ : نہیں نازل کی اللہ نے بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ۭ : ساتھ اس کے کوئی دلیل اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ : نہیں وہ پیروی کرتے اِلَّا الظَّنَّ : مگر گمان کی وَمَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ۚ : اور جو خواہش کرتے ہیں نفس وَلَقَدْ جَآءَهُمْ : اور البتہ تحقیق آئی ان کے پاس مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى : ان کے رب کی طرف سے ہدایت
یہ تو محض کچھ نام ہیں جو رکھ لئے ہیں تم لوگوں نے خود اور تمہارے باپ دادا نے (ورنہ) اللہ نے تو ان کے بارے میں کوئی سند نہیں اتاری حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ تو محض وہم و گمان کے پیچھے چلتے ہیں اور ان خواہشات کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے نفسوں میں آتی ہیں حالانکہ آچکی ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے ہدایت۔
[ 25] مشرکوں کی مت ماری کے ایک اور نمونے اور مظہر کا ذکر وبیان : کہ یہ لوگ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہیں لیکن اللہ کے لئے بیٹیاں، سو ان کی اس مت ماری پر ان کی علامت اور سرزنش کرتے ہوئے اور ان کے ضمیروں پر دستک دیتے ہوئے ان سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا خود تمہارے لئے تو ہوں لڑکے، اور اس [ وحدہٗ لاشریک ] کیلئے ہوں لڑکیاں ؟ جن کو تم لوگ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتے۔ سو ایسے میں تو یہ بڑی ہی ٹیرھی تقسیم ہے۔ کہ جو چیز تم خود اپنے لئے پسند نہ کرو، وہ اپنے خالق ومالک کے لئے تجویز کرو، جیسا کہ آج کے بعض جاہل مسلمانوں کا حل ہے کے مسلمان ایسے ہیں جو کسی چیز کو جب خود اپنے لئے پسند نہیں کرتے، تو اللہ کے نام پردے دیتے ہیں مثلاً عشر میں گھٹیا غلہ دیں گے، اور زکوٰۃ و صدقات میں کھوٹا اور خراب مال پیش کریں گے، وغیرہ، والعیاذ باللّٰہ۔ نیز جیسا کہ اس کا مظاہرہ آج کا جاہل مسلمان اپنی اولاد کے بارے میں کرتا ہے کہ لڑکا پیدا ہو تو کہتا ہے پیروں نے دیا ہے اور اس کا نام بھی وہ پیراں دتہ یعنی پیروں کا دیا رکھتا ہے، مگر جب لڑکی پیدا ہوگی تو کہے گا اللہ نے دی ہے اور اس کا نام پیراں دتی یعنی پیر کی دی ہوئی نہیں رکھتا، سو یہ کل کے اسی قدیم مشرکانہ مرض کے جراثیم ہیں جو آج تک موجود ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ شرک کے ہر شائبہ سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین، بہرکیف طنزیہ انداز اسلوب کے ان فقیروں سے مشرکین کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اپنے لئے تو لڑکے پسند کرتے ہو اور اللہ کے لئے لڑکیاں جن کے بارے میں تمہارا اپنا حال یہ ہے کہ اگر تم سے کسی کے گھر پیدا ہوجائے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے، اور وہ لوگوں سے چھپنے لگ جاتا ہے، اور پھر اس فکر میں پڑجاتا ہے کہ اس کو زندہ درگور کر دے یا اس کو ذلت کے ساتھ زندہ رکھے۔ [ النحل 58، 59] جس مخلوق کو تم لوگ اپنے لئے اس قدر برا اور معیوب سمجھتے ہو اسی کو تم اپنے خالق ومالک کی طرف منسوب کرتے ہو۔ تمہاری مت آخر کہاں ماری گئی ؟ اور تم اس قدر اوندھے کیوں ہوگئے ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال، وسواء وانحراف، بکل حال من الاحوال، جل و علا۔ [ 26] معبود ان باطلہ کی بےحقیقتی کا ذکر وبیان : سو مشرکوں کے خود ساختہ معبودوں اور من گھڑت حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کی بےحقیقتی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ تو محض کچھ نام ہیں جو تم لوگوں نے خود رکھے ہیں اور بس۔ اور ان کو تم لوگوں نے ازخود اپنا حاجت روا اور مشکل کشا قرار دے کر پوجنا شروع کردیا، بغیر کسی سند اور دلیل کے افسوس کہ کل کے اس مرض شرک کے جراثیم بدقسمتی سے آج کے بہت سے مسلمانوں کے اندر بھی کسی نہ کسی شکل میں، یہاں اور وہاں، جگہ جگہ، اور طرح طرح سے پائے جاتے ہیں، چناچہ آج بھی کتنے ہی جاہل مسلمان ایسے ہیں جو ایسے بزرگوں کو جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں، طرح طرح کے ایسے من گھڑت اور خودساختہ اسماء والقاب سے پکارتے اور یاد کرتے ہیں، جس کے لئے ان کے پاس نہ کوئی سند ہے، نہ ثبوت، نہ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں ان کا کہیں کوئی ذکر، اور نہ ہی کبھی خود ان بزرگوں میں سے کسی نے ایسی کوئی بات ارشاد فرمائی ہے، مگر یار لوگوں نے خود اپنی طرف سے اور اپنی خواہش ومرضی کے مطابق ایسے نام گھڑ لئے ہیں، کہ فلاں حاجت روا اور مشکل کشا اور فلاں یہ کرتا ہے اور فلاں وہ کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ، اور اس طرح شرک کو رواج دینے کے لئے ایسے لوگ طرح طرح کے جھوٹے قصے اور من گھڑت قصے اور افسانے گھڑ گھڑ کر پھیلاتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، جل وعلا۔ [ 27] اتباع ظن و ہویٰ باعث ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللّٰہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ظن و گمان اور خواہشات نفس کی پیروی باعث ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ چناچہ سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمات حصر و تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ صرف ظن و گمان اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ اور یہی دو باتیں بیماری اور فساد کی جڑ بنیاد ہیں جن کی نشاندہی اس ارشاد ربانی میں فرمائی گئی ہے، کل بھی سب خرابیوں کی جڑ بنیاد یہی دو چیزیں تھیں، اور آج بھی یہی ہیں یعنی اتباع ظن اور اتباع ہویٰ ، یعنی خیال و گمان کی پیروی، اور خواہشات نفس کی پیروی، چناچہ آج آپ دیکھ لیں کہ جو لوگ کفر و شرک، بت پرستی وتعزیہ پرستی، قبر پرستی، آستانہ پرستی وغیرہ مخلوق پرستی کے طرح طرح کے مہالک میں مبتلا ہیں، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ اس سے ان کی کئی قسم کی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے اور اس سے ان کی طرح طرح کی اغراض اور مختلف قسم کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں، ان کو نذرانے ملتے ہیں، نیازیں پیش کی جاتی ہیں، گدیاں چلتی ہیں، اور طرح طرح کے دوسرے دنیاوی فوائد و منافع حاصل ہوتے ہیں، اس لئے ان لوگوں نے ان سے متعلق طرح طرح کے قصے گھڑے ہوتے ہیں اور افسانے بنائے ہوتے ہیں، مگر ایسے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس طرح یہ خود حق و ہدایت کی دولت سے محروم ہو کر اپنے لئے کتنے بڑے ہولناک خسارے کا سامان کرتے ہیں، تاکہ اس طرح ان کا کاروبار شرک و بدعت پھیلتا اور بڑھتا جائے، مگر ان کو اس کا کوئی شعور و احساس تک نہیں ہوتا کہ اس طرح یہ لوگ خود اپنے لئے اور دوسروں کیلئے کس قدر ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ جل و علا۔ بہرکیف اس سے ظاہر اور واضح فرما دیا گیا کہ ظن و گمان اور نفسانی اہوا و اغراض کی اتباع باعث ہلاکت و محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اور سلامتی و نجات اور فوزوفلاح کی راہ ایک اور صرف ایک ہے۔ یعنی یہ کہ اس حق و ہدایت کی تعلیمات مقدسہ کی پیروی کی جائے جو حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے اس کے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کیلئے نازل فرمائی گئی ہیں۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، سبحانہ وتعالیٰ ۔ فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، بکل حال من الاحوال، جل وعلا۔ [ 28] نور ہدایت سے محرومی، ہر خیر سے محرومی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ نور ہدایت سے محرومی ہر خیر سے محرومی، اور ہدایت کی روشنی سے اعراض و دور گردانی ہلاکتوں کی ہلاکت ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ تو صرف ظن و گمان اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس پہنچ چکی ہدایت ان کے رب کی جانب سے، جو کہ اصل اور کامل ہدایت ہے اور جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہیں کھولتی ہے، جو کہ زندگی کے ایک ایک گوشے کو روشن ومنور کرتی، اور انسان کی راہنمائی فرماتی ہے، جو کہ اب قرآن مجید جیسی کتاب کامل و مقدس کی صورت، میں پہنچ گئی، جو کہ آخری اور ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہدایت ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس سب کے باوجود اس ہدایت کامل سے منہ موڑ کر ظن و گمان اور خواہشات نفس کی پیروی کرتی ہے، حق و ہدایت سے منہ موڑ کر ظن و گمان کی اور خواہشات نفس کی پیروی کرنا کتنے بڑے خسارے کا سودا ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم، سو ایسے لوگ اگر نور حق و ہدایت کے پہنچنے سے پہلے ایسی کسی گمراہی میں مبتلا ہوتے تو ان کے لئے پھر بھی کسی عذر اور معذوری کی کوئی گنجائش ہوسکتی تھی، لیکن اب جب کہ ہدایت ان کے پاس پہنچ چکی اور حق ان کے سامنے پوری طرح واضح ہوگیا تو اب ان کیلئے کسی عذر اور معذوری کی کوئی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔
Top