Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
جو بھی کچھ زمین پر ہے اس نے (بالآخر) فنا کے گھاٹ اتر کر رہنا ہے
[ 21] دنیا کی ہر چیز فانی : سو مذکورہ بالا دلائل کے طبعی اور لازمی نتیجے کے اظہار وبیان کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ زمین پر جو بھی کچھ ہے اس سب نے بہرحال آخر کار فنا کے گھاٹ اتر کر رہنا ہے۔ اور اس انسان نے جو کہ اس دنیاء دوں کے ان عارضی فائدوں اور وقتی منافع پر مست ہو رہا ہے، اور انہی کو اس نے سب کچھ سمجھ رکھا ہے، اس نے بہرحال اس دار فانی کو چھوڑ کر آخرت کے اس دار بقا کی طرف کوچ کرنا ہے، جو کہ دائمی اور ابدی ہے تاکہ وہاں پہنچ کر ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کی بھرپور جزا و سزا پاس کے، اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے بھرپور طریقے سے پورے ہوسکیں، سو بڑے غلط کار اور بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں وہ لوگ جو اس فانی مخلوق میں سے قسما قسم کی چیزوں اور طرح طرح کی ہستیوں کو حاجت روا و مشکل کشا قرار دے کر پوجتے پکارتے ہیں، اور اس طرح وہ شرک کا ارتکاب کرکے اپنی تباہی اور تحقیر و تذلیل اور ہلاکت و تباہی کا سامان خود کرتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ، اور وہ نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ جو خود فانی ہے وہ دوسروں کا حاجت روا و مشکل کشا بھلا کس طرح ہوسکتا ہے ؟ سو روئے زمین پر جو بھی کچھ ہے اس سب نے بہرحال آخر کار فنا کے گھاٹ اتر کر رہنا ہے، صرف آپ کے رب کی ذات اقدس و اعلیٰ ہی باقی رہے گی، جس کیلئے نہ فنا ہے نہ زوال، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی باقی رہے گی، جو حقیقی عظمت والی اور سزاوار تعظی و اجلال ہے، جس کے حضور ہر کسی نے حاضر ہو کر اپنے کیے کرائے کا جواب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ اس کے سامنے دم مار سکے، یا اس کے اذن کے بغیر کسی کی سفارش کیلئے زبان کھول سکے، بہرکیف اس سے مذکورہ بالا دلائل کا نتیجہ اور لازمی تقاضا بیان فرمادیا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر انسان کی تربیت و پرورش کا جو سامان کیا ہے اپنی صفت تخلیق و ایجاد کی جو مختلف شانیں دکھلائیں۔ اس کے احاطہ قدرت و حکمت کے جن نمونوں کا ذکر وبیان ہوا۔ اضداد کے اندر توافق ویکتائی کے جن عظیم الشان مظاہر کو پیش فرمایا گیا، ان سب باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک دن یہ سب فنا ہوجائیں گی اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس و اعلیٰ ہی باقی رہے گی جو کہ بڑی ہی عظمتوں والی اور سزاوار تعظیم و تکریم ہے، اور پھر سب کی اس کے حضور پیشی ہوگی تاکہ ہر کوئی اس کے حضور پہنچ کر اپنے زندگی بھر کے لئے کرائے کا حساب دے سکے، اور اس کا صلہ وثمرہ پاس کے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال،
Top