Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 33
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ : اے گروہ جن و انس اِنِ اسْتَطَعْتُمْ : اگر تم استطاعت رکھتے ہو اَنْ تَنْفُذُوْا : کہ تم نکل بھاگو مِنْ اَقْطَارِ : کناروں سے السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کے وَالْاَرْضِ : اور زمین کے فَانْفُذُوْا ۭ : تو بھاگ نکلو لَا تَنْفُذُوْنَ : نہیں تم بھاگ سکتے اِلَّا بِسُلْطٰنٍ : مگر ساتھ ایک زور کے
اے گروہ جن و انس اگر تم نکل کر بھاگ سکتے ہو آسمانوں اور زمین کی حدود سے تو بھاگ دیکھو تم نہیں بھاگ سکتے مگر زور (اور سند) کے ساتھ
[ 26] گروہ جن و انس کو تنبیہ و تذکیر : سو ان دونوں گروہوں کو خطاب کرکے بطور تنبیہ ارشاد فرمایا گیا کہ تم دونوں اے گروہ جن و انس اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ کہ ہم نے تمہیں تمہارے انجام سے اس طرح پیشگی خبردے دی تاکہ تم اس کے لئے تیاری کرسکو، اور عمر رواں کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت سمجھو اور اس سے پورا فائدہ اٹھاؤ، لیکن تم نے اگر اس کے باوجود اس سے اعراض ہی برتا، اور روگردانی ہی سے کام لیا تو پھر سوچو کہ اس وقت تمہارا کیا بنے گا، جب تم اس روز جزاء کو اپنے سامنے دیکھو گے ؟ جبکہ کوئی مفر نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، والحمدللہ رب العالمین، قبل کل شیء وبعد کل شیء وانہ ھو الاہل للحمد فی الاولی والاخرۃ، وھو الذی شرفنی بھذا العمل الجلیل، من الترجمۃ والتفسیر لکتابہ العزیز الکریم، جل وعلا، [ 27] اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے کوئی باہر نہیں ہوسکتا : سو اس ارشاد سے گروہ جن و انس کی تعجیز و بےبسی کو بیان کرتے ہوئے واضح فرما دیا گیا کہ کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے باہر نہیں ہوسکتی۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " اے گروہ جن و انس اگر تم نکل کر بھاگ سکتے ہو آسمانوں اور زمین کی حدود سے تو تم بھاگ دیکھو "۔ یعنی اس کی گرفت و پکڑ اور موت سے بچنے کے لئے مگر یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے، جب کہ اس کی قدرت تمہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے، [ ابن کثیر، خازن، صفوۃ وغیرہ ] سو اس کے باوجود اگر تمہارا گمام یہ ہے کہ تم غیر ذمہ دار اور مطلق العنان ہو، اور تمہاری کوئی پوچھ پکڑ نہیں ہوگی، تو پھر تم اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی زمین اور اس کے تخلیق فرمودہ آسمانوں کی حدود سے باہر نکل کر دکھاؤ، تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ تم اس کی گرفت و پکڑ سے آزاد ہو، یا آزاد ہوسکتے ہو، مگر کیسے اور کیونکر ؟ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، [ 28] خدا کی خدائی سے نکلنا کسی کیلئے ممکن نہیں : سو گروہ جن و انس سے امر تعجیز کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگ خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو تو نکل کر دکھاؤ۔ سو تم لوگ ایسا نہیں کرسکتے مگر کسی زور کے ساتھ، اور ایسا کوئی خاص زور نہ تمہارے اندر ہے نہ ہوسکتا ہے تو پھر اس کی گرفت سے نکل بھاگنے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ سلطان کے معنی زور اور اقتدار کے بھی آتے ہیں، اور سند کے بھی، یہاں دونوں ہی صورتوں میں معنی صحیح ہیں، یعنی نہ تو تمہارے پاس ایسا کوئی زور اور قوت ہے کہ تم زمین و آسمانوں کی حدود اور خداوند قدوس کی خدائی سے باہر نکل سکو، اور نہ ہی تمہارے لیے کوئی ایسی سند اور پاسپورٹ ممکن ہوسکتا ہے کہ تم ایسا کرسکو، سو اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے بھاگ نکلنا اور اس کی خدائی سے باہر ہوجانا تمہارے لیے ممکن نہیں، تو پھر تم لوگ اس کی گرفت و پکڑ سے نچنت و بےفکر کیوں ہو ؟ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین،
Top