Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 54
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى فُرُشٍۭ بَطَآئِنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ١ؕ وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍۚ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي فُرُشٍۢ : ایسے فرشوں پر بَطَآئِنُهَا : ان کے استر مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ۭ : موٹے تافتے کے ہوں گے وَجَنَا الْجَنَّتَيْنِ : اور پھل دونوں باغوں کے۔ پھل توڑیں گے دونوں باغوں کے دَانٍ : قریب قریب ہوں گے۔ جھکے ہوئے ہوں گے
وہاں پر وہ (خوش نصیب) ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے ایسے عظیم الشان بچھونوں پر جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اور ان دونوں جنتوں کے پھل جھکے جا رہے ہوں گے
[ 46] جنتیوں کے آرام و سکون کا ذکر وبیان : سو ارشار فرمایا گیا کہ وہاں پر وہ ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے۔ یعنی وہ انتہائی اطمینان و سکون اور امن و چین سے ہوں گے، کیونکہ اس طرح تکیہ لگا کر امن و سکون سے رہنا اسے نصیب ہوسکتا ہے جو ہر طرح سے مطمئن اور فارغ البال اور خوش باش ہو۔ اللّٰہم اجعلنا منھم بمحض منک وکرمک یا ارحم الراحمین جنت تو ہوگی ہی امن وامان اور سکون و اطمینان کی جگہ، اور جس ایمان و اسلام سے یہ خوش نصیب اپنی دنیاوی زندگی میں سرفراز و سرشار رہے ہوں گے، اس کے صلے اور بدلے میں ان کو وہاں پر یہ دائمء، ابدی، اور بےمثال امن و سکون نصیب ہوگا، اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے آمین، بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ وہ وہاں کے ان عظیم الشان بستروں پر ٹیک لگائے نہایت آرام و سکون سے بیٹھے ہوں گے جس سے ان کی خوشحالی اور فارغ البالی صاف ظاہر ہوگی۔ اللہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین [ 47] جنتیوں کے بےمثال بچھونوں کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے ایسے عظیم الشان بچھونوں پر جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے۔ اور جب ان کا استر اتنا قیمتی اور عمدہ ہوگا جو کہ عموماً کم درجے کا ہوتا ہے، تو پھر وہ بچھونے باہر سے اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے کیا کچھ ہوں گے، اس کو اللہ ہی جان سکتا ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ نصیب فرمائے، اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے آمین، بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اہل جنت گاؤتکیوں سے ٹیک لگائے ایسے عظیم الشان تختوں پر بیٹھے ہوں گے جن کے استر استبرق کے ہوں گے،۔ چناچہ حضرت سعید بن جبیر ؓ سے جب پوچھا گیا کہ جب ان کے استر اس قدر قیمتی ہوں گے تو پھر ان کے ظواہر کا کیا حال ہوگا ؟ تو انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔ { فلا تعلم نفسٌ مآ اخفی لہم من قوۃٍ اعین ج جزائً بما کانوا یعملون }[ السجدۃ : 17 پ 21] یعنی " کوئی نہیں جان سکتا کہ ان کیلئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان مخفی رکھا گیا ہے ان کے ان اعمال کے بدلے میں جو یہ کرتے رہے تھے "۔
Top