Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان رَفَعَهَا : اس نے بلند کیا اس کو وَوَضَعَ : اور قائم کردی۔ رکھ دی الْمِيْزَانَ : میزان
اسی نے اٹھایا آسمان (کی اس عظیم الشان چھت) کو
[ 6] آسمانی چھت میں سامان غور و فکر : سو اس سے آسمان کی اس عظیم الشان چھت میں سامان غور و فکر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اسی نے اٹھایا آسمان کی اس عظیم الشان چھت کو۔ حسی طور پر بھی کہ آسمان یہ عظیم الشان چھت پوری دنیا پر یکساں طور پر تنا ہوا ہے، اور ہر جگہ ایک ہی شان سے نظر آتا ہے۔ اور پھر اس میں نہ کوئی ٹوٹ ہے نہ پھوٹ نہ پھٹن ہے نہ شگاف۔ نہ کسی اصلاح کی ضرورت، نہ مرمت کا کوئی سوال۔ تو کیا ہے یا ہوسکتا ہے اس شان کا کوئی اور آسمان یا چھت ؟ اور جب نہیں اور یقینا نہیں تو اس کی عظمت میں کیا شک ہوسکتا ہے ؟ فسبحان اللّٰہ الخالق العظیم۔ اور معنوی اعتبار سے بھی یہ ایک عظیم الشان چھت ہے کہ وہ فرشتوں کا مسکن ہے، احکام و شرائع، اوامرو نواہی، اور بارش و ارزاق، وغیرہ سب کچھ ادھر ہی سے آتا ہے، سو تم لوگ ذرہ دیکھو تو سہی کہ کیسی قدرت، حکمت اور رحمت و عنایت ہے تمہارے اس خالق ومالک رب رحمن و رحیم کی، جس نے بغیر ظاہری ستونوں کے تمہارے اوپر اس قدر عظیم الشان اور ناپیدا کنار وسعتوں والی اس چھت کو اس طرح تن دیا ہے۔ سو وہی خالق حکیم، رب قدیر اور مالک مطلق معبود برحق ہے۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اور اس کی ہر شکل و صورت اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے۔ اس میں دوسری کوئی بھی ہستی کسی بھی درجے میں نہ اس کی شریک ہے نہ ہوسکتی ہے وہ ہر لحاظ و اعتبار سے یکتا و بےمثل اور وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ فایاہ نعبد وبہ نستعین، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، [ 7] میزان عدل کی نعمت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی نے رکھ دیا ہے ترازو۔ یعنی نظام عدل و انصاف، جو کہ معنوی ترازو ہے جس پر سارا نظام قائم ہے۔ جمہور مفسرین کرام نے یہاں پر میزان سے عدل و انصاف ہی مراد لیا ہے کہ اسی پر زمین و آسمان کا یہ سارا نظام قائم ہے کہ آسمان و زمین اور اس پوری کائنات کے اندر پائی جانے والی یہ لاتعداد مخلوق اور بےحد و حساب اشیاء حضرت خالق حکیم کی قدرت مطلقہ اور حکمت بالغہ پر مبنی اسی عدل و توازن کی بنا پر قائم ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کے اندر یہ حکمتوں بھرا عدل و توازن قائم نہ ہوتا تو یہ کارگہ ہستی ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتی۔ اسی لیے اس نے شریعت کی وہ میزان اتاری جو سب کے حقوق متعین کرتی ہے اور اسی لیے اس نے حسی ترازو کا بھی حکم دیا۔ کہ اسی سے سب کے حقوق کی پاسداری ہوتی ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا۔ { وزنوا بالقسطاس المستقیم } یعنی تم لوگ تو لوسیدھے ترازو سے، اور اسی بناء پر دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { لقد ارسلنا رسلنا بالبینت وانزلنا معھم الکتب والمیزان لیقوم الناس بالقسط ج وانزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس ولیعلم اللّٰہ من ینصرہٗ ورسلہٗ بالغیب ط ان اللّٰہ قوی عزیز۔ [ الحدید : 25 پ 27] اور یہاں پر میزان سے مراد حسی ترازو بھی مراد لیا جاسکتا ہے جیسا کہ روایات میں اس کا ذکر موجود ہے، [ المراغی، الجامع وغیرہ ] نیز اسی نے آسمان و زمین کے اندر یہ میزان رکھ دیا جس سے اس کائنات کا توازن قائم ہے، ورنہ یہ سارا نظام درہم برہم ہوجاتا، سو عدل و توازن قدرت کی ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ بہرکیف ایک عدل و انصاف کا وہ عظیم الشان معنوی ترازو ہے جس پر اس کائنات کا وجود قائم اور اس کا نظام برقرار ہے اور جو براہ راست حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے۔ سو میں اور کسی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اور دوسرا دین و شریعت کا وہ عظیم الشان مقدس ترازو ہے جس کے ذریعے ہر کسی کے حقوق کا تعین فرمایا گیا۔ اس ترازو کو قائم کرنا بندوں کے ذمے ہے تاکہ سب کے حقوق محفوظ ہوں، اور کسی کی حق تلفی نہ ہونے پائے۔ اور معاشرے میں امن وامان کا دور دورہ ہو۔ اس لیے اس کی ذمہ داری بندوں پر ڈالی گئی، اور ان سے فرمایا گیا۔ { الا تخدرو المیزان } " یعنی تم لوگ ترازو کے سلسلے میں کوئی کمی اور کوتاہی نہ کرنا " بلکہ برابر، برابر ناپنا تولنا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل،
Top