Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 19
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ١ۖۗ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَ نُوْرُهُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖٓ : اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ ڰ : وہ سچے ہیں وَالشُّهَدَآءُ : اور شہید ہیں عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ : اپنے رب کے نزدیک لَهُمْ اَجْرُهُمْ : ان کے لیے ان کا اجر ہے وَنُوْرُهُمْ ۭ : اور ان کا نور ہے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ : اور انہوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : جہنم والے ہیں
اور جو لوگ (سچے دل سے) ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر یہی لوگ ہیں صدیق اور شہید ان کے رب کے یہاں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو وہ دوزخی ہیں
[ 69] ایمان باللہ سعادت و کامرانی کی اصل اساس : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ سچے سل سے ایمان لائے اللہ پر یعنی اس کے وجود باجود اور اس کی وحدانیت مطلقہ پر، اس کی صفات و کمالات پر، اور اس کے حقوق و اختیارات پر، کہ اس ساری کائنات کا خالق بھی وہی ہے، اور مالک بھی تنہا وہی، اور اس سب پر حکم اور تصرف بھی اسی وحدہ لاشریک کا چلتا ہے، ان میں سے کسی بھی چیز میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں، سو صلاح و فلاح کی اساس و بنیاد ایمان و یقین کی اولین اساس و بنیاد اللہ پر ایمان و یقین ہے، جو کہ اس ساری کائنات کا خالق ومالک ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اس خالق کل اور مالک مطلق پر ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند و سرفراز کرنے والی دولت ہے جس کے بغیر نہ انسان کی دنیا بن سکتی ہے اور نہ اس کی آخرت سنور سکتی ہے۔ فزدنا اللّٰہم ایمانًا بک ویقنًا وحبا فیک واطاعۃ لک ووفقنا لما تحبت وترضی من القول والعمل بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے راہ حق پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکرو فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ویا ارحم الراحمین ، [ 70] ایمان باللہ کا ذریعہ ایمان بالرسل : سو ارشاد فرمایا گیا اور وہ ایمان لائے اس کے رسولوں پر، کہ وہ سب کے سب سچے تھے، خود بھی اور ان کے پیغام بھی، جن کا سلسلہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوا اور حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوگیا، اور اب فلاح و نجات کا دار و مدار صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی اتباع و پیروی ہی میں ہے، کہ آپ ﷺ کی بعثت و تشریف آوری کے بعد گزشتہ تمام انبیاء کرام کی شریعتیں منسوخ ہوگئیں، جس کو دین حنیف میں طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، مثلاً حضور ﷺ کا ایک ارشاد ہے کہ آج اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا، سو ایمان باللہ سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ایمان بالرسل ہی ہے۔ کیونکہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے کہ اللہ کیسا ہے اس کی صفات کیا ہیں، اور اس کے حقوق و اختیارات کیا ہیں، اور اس کی اطاعت و بندگی کے طور طریقے کیا ہیں، ورنہ کسی بھی دوسرے ذریعے سے معرفت خداوندی سے سرفرازی ممکن نہیں۔ اور اب اس کا خلاصہ اس شریعت مقدسہ کی صورت میں موجود ہے جس کا امام الرسل، خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے، اور جو اب قرآن و سنت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ سو اب ہدایت و نور کا منبع ومصدر یہی ہے۔ اس کے سوا حق و ہدایت کا دوسرا کوئی ماخذ ومصدر سرے سے ہے ہی نہیں، پس جو لوگ اس سے محروم ہیں وہ نور حق و ہدایت سے محروم اور سراسر اندھیروں میں مستغرق ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، جل وعلا، [ 71] صدیقین اور شہداء کی نشاندہی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں صدیق اور شہید ان کے رب کے یہاں۔ جیسا کہ امام تفسیر حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں " کل مومن صدیق " [ ہر مومن صدیق ہے ] [ جامع، خازن، کبیر وغیرہ ] یعنی ایسے خوش نصیب حضرات نے صدیقیت اور شہادت فی سبیل اللہ کے مراتب عالیہ کو اپنے لئے جمع کردیا، اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے مومن سب کے سب شہید ہیں، مومنو امتی شھدائ۔ پھر آپ ﷺ نے یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی [ ابن کثیر، مدارک، صفوہ وغیرہ ] یہاں پر " والشھدآئ " کے عطف کے بارے میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ اس کا " الصدیقون " پر ہے اور اوپر کی تفسیر اسی احتمال پر مبنی ہے، اور دوسرا احتمال اس میں یہ ہے کہ یہ مبتداء " ھو " اور " عند ربھم " اس کی خبر اور یہ جملہ مستانفہ، ہو اور پہلا جملہ " الصدیقون " پر پورا ہوجائے، یہاں پر یہ سلسلہ گفتگو چونکہ انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں چل رہا ہے اس لئے اس سے ازخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ فراخ دلی سے اپنے مال اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہیں وہی دراصل صدیق اور شہیدا اور اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔ سو اس صدیقین اور شہیدا کی نشاندہی فرما دی گئی کہ یہ وہ خوش نصیب ہیں جو ان صفات سے موصوف و متصف ہیں بس اصل چیز جس کی اللہ تعالیٰ کے یہاں قدر و قیمت اور اس کا وزن ہے وہ ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، فی کل ان وحین، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم اور ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین، [ 72] صدیقین اور شہداء کے اجر وثواب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کیلئے انکا اجر ہے ان کے رب کے یہاں، اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا عظیم الشان اجر ہوگا جو ان کے مرتبہ و مقام اور ان کے اخلاص و ایمان کے مناسب ہوگا، اور ان کے ایمان و اخلاص کے درجات و مراتب سے ان کا رب پوری طرح آگاہ اور واقف ہے، اس لئے وہ ان کو اسی کے مطابق نوازے گا، سو اللہ تعالیٰ کے یہاں شہداء اور صدیقین کیلئے جو درجات و مراتب مقرر ہیں، وہ ہر داعیء ایمان کو حاصل نہیں ہوجائیں گے، بلکہ یہ انہی نیک بختوں کو نصیب ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر سچا پکا ایمان رکھتے ہوں گے، اور وہ اپنے عمل و کردار سے اپنے دعویء ایمان کا ثبوت پیش کریں گے، یہاں پر جیسا کہ ابھی اوپر ذکر ہوا چونکہ خاص طور پر زیر بحث انفاق فی سبیل اللہ کا معاملہ ہے اس لیے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ دین حق کی نصرت کیلئے فراخ دلی سے اپنے مال خرچ کریں گے، وہی لوگ درحقیقت اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں، اور انہی کو صدیقین اور شہداء کے زمرے میں شریک و شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوگی، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، سو بات صرف زبانی کلامی دعو وں کی نہیں بلکہ اس کیلئے عمل و کردار کا ثبوت بھی چاہیے اسی سے دعویء ایمان کی صداقت کا پتہ چلتا ہے۔ [ 73] صدیقین اور شہداء کے لئے ان کے نور کی بشارت : سو ارشاد فرمایا گیا اور ان کے لئے ان کا نور ہوگا : جو ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا جیسا کہ اوپر آیت نمبر 11 اور نمبر 12 میں ارشاد فرمایا گیا ہے اور جو مختلف درجات و مراتب پر ہوگا، ان کے ایمان و یقین کی قوت اور اس کے درجات کے اعتبار سے، اور ان کے ان اعمال کے لحاظ سے جو یہ زندگی بھر کرتے رہے تھے، جیسا کہ اوپر آیت نمبر 11 اور 12 میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے سو یہ اجر و نور انہی بندگان صدق و صفا کو نصیب ہوگا، جو اپنے دعویٰ ایمان و یقین میں سچے اور پکے ہوں گے، اور جو اپنے عمل و کردار سے اپنے اس دعوے کی صداقت کا عملی ثبوت فراہم کریں گے، ہر مدعی ان کا حقدار نہیں بن جائے گا۔ سو ایسے ہی مخلص اور صداقت شعار مقصد حق کی شہادت دینے کے اہل ہوتے ہیں اور ایسے ہی مردان حق و صدق سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ابتلاء و آزمائش کے موقع پر شہادت حق کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیں گے۔ اسلام میں اس وصف کے سب سے نمایاں مصداق سیدنا صدیق اکبر ؓ ہیں۔ جنہوں نے ہر نازک سے نازک دور میں اپنے ایمان و اقرار کی صداقت اور پختگی کا ثبوت اپنے عمل و کردار سے دیا اور ایسا کہ وہ تاریخ کا ایک روشن باب اور انہی کا حصہ ہے، اور اس کے بعد دوسرے وہ بندگان صدق و صفا بھی جو اپنے اپنے درجات کے مطابق انہی کے نقش قدم پر چلے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کی اتباع اور پیروی نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، [ 74] کفر و انکار کا نتیجہ و انجام دائمی دوزخ۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جنہوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو وہ یار ہوں گے دوزخ کی دیکتی ہوئی آگ کے۔ جس میں ان کو ہمیشہ ہمیش کیلئے رہنا ہوگا کہ وہ ان کے مناسب اور اس کے لائق ہیں، اس لئے کہ انہوں نے ایمان و یقین کی راہ حق و صواب اور نور حق و ہدایت سے منہ موڑا، اور کفر و تکذیب کی راہ کو اپنایا، جو کہ دوزخ کی راہ ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم، سو کفر و انکار اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہرحال دوزخ کی ہولناک آگ ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم اور ایسا کہ یہ اس سے کبھی چھوٹنے اور نکلنے بھی نہیں پائیں گے، اور ان کو دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ کا صاحب اور ساتھی، یعنی یار اور دوست فرمایا گیا ہے، سو جس طرح ایک ساتھی اپنے ساتھی کے ساتھ رہتا ہے، اسی طرح یہ بدبخت دوزخ کے ساتھی اور اس کے یار ہوں گے، اور وہ ان کی ساتھی اور یار ہوگی، نہ وہ ان کو چھوڑے گی اور نہ ہی یہ اس سے کسی طرح الگ ہو سکیں گے، والعیاذ باللّٰہ العظیم بہرکیف اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے کفر و انکار سے کام لیا اور انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ سب دوزخی ہیں جہاں ان کو اپنے کفر و انکار اور تکذیب حق کے نتیجے میں ہمیشہ رہنا پڑے گا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ یہاں پر موقع کلام دلیل ہے کہ جن لوگوں نے اگرچہ زبان سے تکذیب نہیں کی لیکن اپنے عمل و کردار سے انہوں نے تصدیق بھی نہیں کہ، بلکہ ان کا عمل و کردار اس کے برعکس رہا ہو وہ بھی اسی حکم کے عموم میں داخل ہیں جیسا کہ آج دنیا میں ہو رہا ہے کہ کتنے ہی نام نہاد مسلمان ایسے ہیں جو اسلام کا نام تو لیتے ہیں لین ان کا عمل ان کے پاس دعوائے ایمان کے بالکل خلاف اور برعکس ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ چناچہ ایسے لوگ طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے، جگہ جگہ سجدے اور طواف کرتے، غیر اللہ کی نذریں مانتے، نیازیں دیتے، نماز روزے کا ان کے یہاں کوئی اہتمام نہیں۔ طرح طرح کی محرمات کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔ سو وہ دھڑلے سے کھاتے اور اس کی وکالت اور طرف داری کرتے ہیں، جواء کھیلتے اور شراب پیتے اور توبہ و استغفار سے غافل و لاپرواہ، حق اور اہل حق سے دور نفور وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر ایمان و اسلام کیا ہوا ؟ اور دینداری کس چیز کا نام ہوا ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، وھو الھادی الیٰ سواء السبیل، جل جلالہ وعم نوالہ۔
Top