Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
(اور ہم نے یہ تمہیں اس لئے بتلا دیا کہ) تاکہ نہ تو تم لوگ کسی ایسی چیز پر غم کھاؤ جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اور نہ ہی کسی ایسی چیز پر اترانے لگو جو اللہ تمہیں عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کسی بھی خود پسند شیخی باز کو
[ 93] تقدیر کا فلسفہ اور اس کا فائدہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں کو یہ حقیقت بتادی کہ تاکہ نہ تو تم لوگ کسی فوت شدہ چیز پر غم کھاؤ، اور نہ ہی اس کے ملنے پر اتراؤ، کیونکہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے نکل گیا وہ تمہارے نصیب میں تھا ہی نہیں، اور جو تمہیں ملا وہ اس نے تمہارے لئے پہلے سے ہی لکھ رکھا تھا جو اس نے اپنے فضل و کرم سے تمہیں عطا فرمایا۔ سبحانہ وتعالیٰ ، سو نہ تم کو ماضی کا غم اور نہ مستقبل کا خوف، اور نہ اترانا اور نہ تکبر کرنا، سو تقدیر کے اس عقیدہء صافیہ کی بناء پر انسان میں کبر و غرور، فتنہ، اور جزع اور غم والم کی بجائے صبر و شکر کی وہ پاکیزہ صفات نشوونما پاتی ہیں، جن سے وہ خیر اور بھلائی کی طرف بڑھتا اور معالی میں ترقی کرنا چلا جاتا ہے، اور اس طرح اس کی ہر حالت خیر ہی خیر بن جاتی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، سو ایسے کسی موقع پر اترانے یا غم کھانے کی بجائے تم لوگ صبر وشکر سے کام لو، اس طرح تمہارے لئے اس میں سکون قلب اور راحت بال ایک عظیم الشان سامان ہے، جیسا کہ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جو بھی کوئی مصیبت مجھ پر آتی ہے میں اس کے اندر تین نعمتیں محسوس کرتا ہوں، ایک یہ کہ یہ مصیبت میرے دین میں نہیں، والحمد للہ، دوم یہ کہ اپنے سے پہلے والی مصیبت سے بڑھ کر نہیں، والحمدللہ، اور سوم یہ کہ اس پر مجھے اجر عظیم ملنے والا ہے، والحمدللہ [ صفوۃ وغیرہ ] سبحان اللّٰہ ! کیسی عظیم الشان اور بےمثال نعمت ہے یہ ایمان یقین کہ اس کی بناء پر مومن صادق کیلئے ہر حالت خیر ہی خیر بن جاتی ہے، وللہ الحمد جل وعلا، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، [ 94] اکڑنا اوع اترانا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کسی بھی " مختال " یعنی اترانے والے کی یعنی کسی بھی ایسے شخص کو جو اپنے جی میں اپنے آپ کو کوئی بری چیز سمجھتا ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل سوء وشر، سو اللہ تعالیٰ کسی ایسے مختال اور خود پسند شخص کو پسند نہیں کرتا بلکہ اس سے نفرت کرتا ہے، والعیاذ باللّٰہ، پس نعمت ملنے پر اترانے اور شیخی بگھارنے کے بجائے اس پر اللہ تعالیٰ کا دل و جان سے شکر بجالانا چاہیے، جس نے محض کرم سے اس نعمت سے نوازا ہے، یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ " پسند نہیں کرتا " کے الفاظ اگرچہ بظاہر بڑے نرم معلوم ہوتے ہیں، لیکن معنیٰ کے اعتبار سے یہ بہت سخت ہیں، کیونکہ اس طرح کے انداز و اسلوب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے شخص کو برا اور مبغوض سمجھتا ہے، لیکن اس بات کو صاف لفظوں میں کہنے کی بجائے اپنے تیوروں اور اپنے لب و لہجہ سے اس کی شدت و نفرت کا اظہار کردیا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال۔ [ 95] شیخی بازی ایک مذموم صفت۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ پسند نہیں کرتا کسی شیخی باز کو جو دوسروں پر فخر جتلاتا ہو۔ یعنی جو دوسروں کے مقابلے میں اپنی برائی اور بزرگی جتلاتا ہے، اور اس طرح ایک طرف تو وہ دوسروں کی تحقیر ہے اور دوسری طرف وہ خود کبر و غرور اور عجب و خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے، والعیاذ باللّٰہ العظیم، اور عجب و خود پسندی کی اس بیماری کا منشاء مصدر یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمت کی اس مالک کا فضل و کرم سمجھنے کی بجائے اس کو اپنا کمال اور اپنی محنت اور چالاکی کا نتیجہ اور ثمرہ سمجھنے لگتا ہے، جس کے لازمی نتیجے اور طبعی تقاضے کے طور پر وہ حضرت واہب مطلق جل جلالہ کے شکر کے شرف سے محروم ہوجاتا ہے جو کہ ایک بڑی محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ کیونکہ شکر نعمت سے حضرت واہب مطلق جل مجدہ کی طرف سے عنایت مزید اور نعمت میں اضافے اور برکت کی سعادت اور سرخروئی نصیب ہوتی ہے۔ جبکہ کفران نعمت باعث محرومی اور عذاب شدید کا موجب ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ { واذ تاذن ربکم لئن شکرتم لا زید نکم و لئن کفرتم ان عذابی لشدید } [ ابراہیم : 7 پ 13] یعنی اگر تم لوگ شکر کرو گے تو میں تم کو نعمت بڑھا کر دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو پھر یقینا میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال وسواء وانحراف، جل وعلا۔
Top