بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ ہی کی تسبیح کی (اور تسبیح کرتا ہے) وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ جو کہ زمین میں ہے اور وہی ہے سب پر غالب بڑا ہی حکمت والا
[ 1] کائنات پوری اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے، اپنی زبان قال سے جس کو ہم نہیں سمجھ سکتے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { یسبح لہٗ السموٰت السبع والارض ومن فیہن ط وان من شیئٍ الا یسبح بحمدہٖ ولکن لاتفقھون تسبیحھم انہٗ کان حلیما غفورًا } [ بنی اسرائیل : 44 پ 15] یعنی اپنی زبان حال سے کہ ان میں سے ہر چیز ہر حالت میں اللہ پاک کی عظمت وقدرت اور اس کی حکمت وحدانیت کی گواہی دے رہی، ففی کل شیء لہ شاھد یدل علی انہ واحد۔ یعنی ہر چیز کے اندر ایک شاہد موجود ہے، جو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، سبحانہ وتعالیٰ ، سو اس آیت کریمہ سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول و منہمک ہے، اور یہ اپنی بندگی اور سرافنگندگی سے اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس کا خالق ہر قسم کے نقص و عیب اور ہر شائبہ شرک و اشتراک سے پاک اور بری ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو بندہ جب اس وحدہٗ لاشریک کی تسبیح و تقدیس سے سرشار ہوگا تو اس کو اس پوری کائنات کی ہمنوائی نصیب ہوگی اور اس طرح اس کو اس پوری کائنات کی طرح پوری کائنات کی خیرات و برکات سے سرفرازی نصیب ہوگی، وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، [ 2] اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے مقصود و مراد ؟: یعنی ہر چیز اس کی عظمت و تقدیس اور اس کی پاکی اور یکتائی کا اظہار وبیان کرتی ہے، سو زمین و آسمان کی ہر چیز نے اس کی تسبیح کی، اور ہر چیز اس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے، یعنی یہاں ماضی کا صیغہ سبح استعمال ہوا ہے جبکہ دوسرے مقام پر یسج یعنی مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا گیا ہے، اور کسی جگہ سبحان مصدر کا صیغہ استعمال فرمایا گیا ہے، پس ان سب سے معلوم ہوا کہ ہر چیز اللہ پاک کی تسبیح کرتی ہے، اور ہر حال میں ہر زمانے میں کرتی ہے، ماضی میں بھی، اور حال اور مستقبل میں بھی، فسبحان اللہ الذی لا الہ الاھو، و سبحان اللہ وبحمد و سبحان اللہ العظیم، عدد خلقہ ورضا نفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلماتہ، اور مقصود اس تسبیح و تقدیس سے یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس کا خالق ہر نقص و عیب اور ہر شائبہ شرک و اشتراک سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے، وہ ہر چیز پر پوری قدرت اور کامل اقتدار رکھتا ہے، اور اس کا ہر کام حکمت سے ہوتا ہے، کوئی اس کے ارادے میں مزاحم نہیں ہوسکتا، اس وجہ سے بندوں کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسی کے حوالے کر دے اسی پر بھروسہ کرے اور اس کے احکام کی دل و جان سے تعمیل کرے، اسی سے ڈرے اور اسی سے امید رکھے، کہ مصرف حقیقی وہی ہے، اس کے اذن کے بغیر کوئی چیز اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتی، سبحانہ وتعالیٰ ، وہی ہے جو بڑا ہی زبردست اور نہایت ہی حکمت والا ہے، پس اسی کی اطاعت و بندگی بندوں پر اس کا حق بھی ہے، اور اسی میں ان کی سعادت و سرفرازی بھی ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ،
Top