Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 23
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا اَلْمَلِكُ : بادشاہ الْقُدُّوْسُ : نہایت پاک السَّلٰمُ : سلامتی الْمُؤْمِنُ : امن دینے والا الْمُهَيْمِنُ : نگہبان الْعَزِيْزُ : غالب الْجَبَّارُ : زبردست الْمُتَكَبِّرُ ۭ : بڑائی والا سُبْحٰنَ : پاک اللّٰهِ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بادشاہ حقیقی ہے نہایت پاک سراسر سلامتی امن دینے والا نگہبان سبپر غالب ہر خرابی کو درست کرنے والا بڑی ہی عظمت والا اللہ پاک ہے ان تمام چیزوں سے جن کو یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں
[ 62] بادشاہ حقیقی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے، سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ وہی ہے بادشاہ حقیقی۔ کہ اس کی بادشاہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کیلئے رہے گی، نہ اس کو کوئی خطرہ وزوال ہے، اور نہ ہی وہ کسی کے ماننے اور تسلیم کرنے کی محتاج ہے، اس ساری کائنات کا خالق ومالک بھی تنہا وہی ہے، اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی وحدہٗ لاشریک کا چلتا ہے، سو زمین و آسمان کی اس پوری کائنات کو پیدا بھی تنہا اسی وحدہٗ لاشریک نے فرمایا ہے اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی کا چلتا ہے۔ اسی لئے اس نے وحی اتاری اور اپنے رسول بھیجے تاکہ اس کے بندے اس کے احکام سے آگاہ ہو سکیں، اور اس خالق ومالک اور بادشاہ حقیقی کی اس قلمرو میں اس ہدایات اور تعلیمات مقدسہ کے مطابق زندگی گزاریں، تاکہ اس طرح وہ سعادت دارین سے سرفراز ہوسکیں۔ اور اس دنیا میں انسانوں میں سے جن کو بھی کوئی حکومت اور بادشاہی عارضی اور ظاہری طور پر ملتی ہے، وہ سب اسی وحدہ لاشریک کی بخشش و عطا اور دارو دہش سے ملتی ہے، کہ بادشاہی دینا اور اس کو چھین لینا اسی کا کام اور اسی کی شان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ { قل اللّٰہم ملک الملک توتی الملک من تشآء وتنزع الملک ممن تشآء ز وتعزمن تشآء وتذل من تشاء ط بیدک الخیر ط انک علی کل شیء قدیر۔ } [ آل عمران : 26 پ 3] یعنی مالک المک ! تو جس کو چاہتا ہے بادشاہی عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا بادشاہی چھین لیتا ہے، سو کتنے بدبخت ہیں وہ لوگ جو اس واہب مطلق، جل جلالہٗ سے منہ موڑ کر خود ساختہ ایری غیری اور من گھڑت " سرکاروں " کے آگے جھکتے ہیں مگر ان کو اس کا کوئی شعور و احساس ہی نہیں کہ اس طرح وہ اپنے لئے کسی قدر ہولناک خسارے کا سامان کر رہے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ و ضلال سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ، [ 63] اللہ تعالیٰ ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک ہے، سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ قدوس ہے یعنی وہ ہر نقص و عیب اور شائبہ شرک سے پاک اور بری ہے۔ پس وہ نہایت ہی پاک اور بری ہے ہر طرح کے نقص و عیب سے اور ہر قسم کے شائبہ و شرکیات سے، اور وہ ہر طرح کی کمزروی اور برائی اور اس کے ہر شائبہ سے بالکل پاک اور منزہ ہے۔ اسی لیے اس نے اپنے بندوں کو پاکیزہ بنانے کے لئے اپنی کتاب اتاری اور اپنے رسول کو مبعوث فرمایا، تاکہ اس کے بندے اس کے ذریعے اس کا قرب حاصل کرکے مقدس اور پاکیزہ مخلوق بننے کے اہل ہو سکیں، اور اس کے نتیجے میں وہ اس دنیا میں بھی حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی نعمت سے بہرومند ہوسکیں اور آخرت میں بھی حقیقی اور دائمی کامیابی سے سرفراز ہو سکیں۔ پس جا کا تعلق اس کے ساتھ صحیح ہوگا اور وہ اسی کا بن کر رہے گا وہی پاکیزگی کے شرف سے مشرف و فیضاب ہو سکے گا، اور جتنا وہ اس میدان میں آگے بڑھتا جائے گا اتنا ہی اس کا مرتبہ و مقام بلند ہوتا جائے گا اور وہ رشک ملائک بنتا چلا جائے گا۔ وباللّٰہ التوفیق۔ اور اس کے برعکس جو اس سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ وہ اتنا ہی اس کے نور معرفت و حکمت سے محروم ہو کر طرح طرح کی ظلمات اور مہالک و درکات میں گرتا جائے گا والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، [ 64] وہ سراسر سلامتی والا ہے : پس نہ تو خود اس کی ذات اقدس کی طرف کوئی نقص وعیب راہ پاسکا ہے نہ پاس کے گا، اور نہ کسی بھی طرح اس کا کوئی امکان ہے۔ اور اپنی مخلوق کو بھی اس نے ہر طرح کے ظلم و سلامتی میں رکھا ہوا ہے، کہ وہ ذرہ برابر کسی پر ظلم نہیں کرتا، سبحانہ وتعالیٰ ، سو اس وحدہٗ لاشریک کی ذات اقدس و اعلیٰ ہر خطرے سے امان اور ہر آفت سے سپر ہے، اور بندہ جب اپنے آپ کو اس کی پناہ میں دے دیتا ہے تو وہ سکھ اور چین پاتا ہے، اور اس کی اسی صفت کریمہ کا فیض ہے کہ بندہ اس کے ذکر اور اس کی یاددلشاد سے اطمینان و سکون قلب کی دولت سے سرفراز ومالا مال ہوتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور " الا " کے حرف تنبیہ و تخصیص کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا۔ { الذین اٰمنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللّٰہ ط الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب } [ الرعد : 28 پ 13] یعنی آگاہ ہوا اے لوگو ! کہ اللہ کے ذکر ہی سے اطمینان ملتا ہے دلوں کو۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے حفظ و امام میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویا ارحم الراحمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ، [ 65] وہ امن دینے والا ہے، سبحانہ وتعالیٰ : یعنی وہ امن دینے والا ہے تمام جہانوں اور اپنی ساری مخلوق کو جس سے ہوا میں اڑنے والے پرندے، سمندر میں تیرنے والی مچھلیاں اور بلوں سوراخوں میں رہنے والے حشرات تک مستفید و فیضیاب ہو رہے ہیں اور حضرت انسان جو کہ اس ساری مخلوق کا مخدوم ومطاع ہے وہ اپنے اردگرد و احاطہ کرنے والی طرح طرح کی اور غیر محسوس و مدرک آفات و بلیات میں بھی امن و عافیت سے زندگی بسر کرتا ہے۔ نیز اس نے اپنے بندوں سے شواب و عذاب کے جو کچھ وعدے وعید فرما رکھے ہیں، ان سب میں بھی اس کی ہر بات سچی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور بندہ جب شیطان اور اس کے ایجنٹوں کے حملوں سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو اس رب رحمان و رحیم کی پناہ میں دے دیتا ہے تو اس کو وہ اپنے امن وامان سے نوازتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور یہ امن و سلامتی اور حفاظت و پناہ اس وحدہٗ لاشریک کے حفظ وامان کے بغیر اور کہیں سے ملنا ممکن نہیں، اور اس کے دامن پناہ کے بغیر ابلیس کے مکرو فریب اور اس کی شر انگیزیوں اور دسیسہ کاریوں سے بچنے اور محفوظ رہنے کی کوئی صورت ممکن نہیں کہ اس کے سوا اور کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جو ابلیس لعین کی رسائی سے محفوظ اور اس کی دسترس سے باہر ہو۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے اور ہر قسم کے شروروفتن سے ہمیشہ محفوظ اور سلامت رکھے اور ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویا ارحم الراحمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ، [ 66] وہ سب پر نگہبان ہے، سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ " مھیمن " یعنی نگران و نگہبان ہے۔ یعنی ہر آفت و مصیبت سے، مھیمن، دراصل عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے۔ ھیمن الطائر علی فراخہٖ ۔ یعنی " پرندے نے اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے لے لیا "۔ سو بلاشبہ اسی طرح سمجھا جائے کہ اللہ پاک نے ابھی اپنی گونا گوں مخلوق کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں لے رکھا ہے، اور وہ سب اس کی رحمت و عنایت ہی سے جی رہی ہے۔ نیز وہ اپنے بندوں کے اعمال و احوال پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے، تاکہ ان کو اس کے مطابق بدلہ سے سکے، اور کسی کا حق نہ مارا جائے اور اس طرح عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہو سکیں، اور اسی بناء پر قرآن حکیم کو بھی مہیمن فرمایا گیا ہے کہ یہ گزشتہ تمام آسمانی کتابوں کی اصولی تعلیمات کی حامل اور ان کی محافظ و نگہبان کتاب ہے، اور یہ ان کیلئے کسوٹی اور ان کی وکیل اور معتمد کتاب ہے۔ ابن الانباری اس کو توضیح و تشریح میں کہتے ہیں " القائم علی الناس " یعنی جو لوگوں کا محافظ ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور غزالی کہتے ہیں " القائم علی خلقہ " یعنی اپنی مخلوق کی نگرانی کرنے والا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { واللّٰہ علی کل شیئٍ شھید } پس ساری مخلوق اسی کی رحمت و عنایت کے سہارے زندہ اور موجود ہے اس لئے ہر قسم کی عبادت اور بندگی اسی وحدہ ٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے، سبحانہ وتعالیٰ ، فلہ الحمد ولہ الشکر بکل حال من الاحوال، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ اور ہر قسم کے شر و روفتن سے ہمیشہ محفوظ و سلامت رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویا ارحم الراحمین، [ 67] اللہ سب پر غالب ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ سب پر غالب بڑا ہی زبردست ہے کہ اس کے ارادہ میں کوئی بھی طاقت حائل نہیں ہوسکتی، وہ جو چاہے جب چاہے اور جیسے چاہے کرے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس سچی عزت اسی کی ہے جو اس کا بن گیا۔ فوفقنا اللّٰہم لما تحب وترضی من القول والعمل وکن لنا ولا تکن علینا۔ سو اسی وحدہٗ لاشریک کی اس صفت کریمہ میں اہل ایمان کیلئے تسکین و تسلی اور بشارت و خوشخبری کا سامان بھی ہے کہ جب یہ اس رب عزیز و کریم کے بندے بن کر رہیں گے، تو کوئی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، اور دوسری طرف اس میں باغی اور سرکش عناصر کے لئے تہدید بھی ہے کہ وہ اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے، پس ہر کوئی خود دیکھ لے کہ وہ یہاں کھڑا ہے اور اپنے اس خالق ومالک عزیز کے ساتھ اس کا معاملہ اور تعلق کس طرح کا ہے ؟ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور یہی خیال و احساس ایسا ہے جو انسان کیلئے صلاح و اصلاح اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ووسلیہ ہے۔ اللّٰہم فخذنا بنواصنا الی ما فیہ حبک ورضاک بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء سو سعادت و سرفرازی اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہی میں ہے، اور بس۔ اسی کی فکر و کوشش میں لگے رہنا چاہئے، اللہ توفیق بخشے اور اس قدر کے وہ ہم سے راضی ہوجائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ، [ 68] اللہ جبار ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : یعنی خرابی کو درست کرنے والا جو اس کے شکستہ دل اور حاجت مندوں کو پیش آتی ہے، نیز وہ ایسے غلبے وقہر والا ہے کہ اپنی مخلوق میں جو چاہیے تصرف فرمائے کوئی اس کو روک نہیں سکتا، اور اس کی جناب اقدس و اعلیٰ تک کسی کی وسعت رسی ممکن نہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ " جبار " کے اصلی معنی برے زور آور اور طاقتور کے ہوتے ہیں، اسی لئے عربی زبان میں اس کا اطلاق کھجور کے ان درختوں کے لئے ببھی آیا ہے جو غیر معمولی طور پر اونچے ہوں، اسی لئے قرآن حکیم میں اس کا اطلاق ان زور آور اور طاقتور لوگوں پر بالادست اور ان پر جبر اور ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، اس لیے عربی زبان میں اسکا اطلاق کھجور کے ان درختوں کیلئے بھی آیا جو غیر معمولی طور پر اونچے ہوں۔ اسی لیے قرآن حکیم میں اس کا اطلاق ان زور آور لوگوں کیلئے بھی ہوا ہے جن سے ڈر کر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی تھی کہ موسیٰ بڑے سخت اور زور آور لوگ رہتے ہیں، جن کے ہوتے ہوئے ہم وہاں کبھی نہیں جاسکتے، چناچہ سورة المائدہ میں ارشاد فرمایا گیا۔ { قالوا یموسی ان فیھا قوما ما جبارین وانا لن ندخلہا حتیٰ یخرجوا منھاج فان یخرجوا منھا فانا دخلون } [ المائدہ : 23 پ 6] یعنی انہوں نے کہا کہ اسے موسیٰ اس بستی میں بڑے سخت لوگ موجود ہیں اس لئے ہم اس میں کبھی داخل نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ وہ اس سے نکل جائیں اور اللہ تعالیٰ کیلئے اس صفت کریمہ یعنی صفت " جبار " کے استعمال میں تین پہلو ہیں، ایک جبر اصلاح، یعنی وہ ہر خرابی کو درست کرنے والا ہے، اور دوسرا پہلو اس کا ہے جبر قہر و غلبہ، یعنی وہ سب پر غالب اور سب سے زیادہ طاقتور اور زور آور ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ وہ جس کو چاہئے اور جب چاہئے اپنی گرفت و پکڑ میں لے لے، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ کوئی بڑے سے بڑا ظالم اور جبار بھی اس کی گرفت سے بچ اور بھاگ نہیں سکتا۔ اور تیسرا جبر ہے " جبر غلو " یعنی وہ سب سے اعلیٰ وبالا ہے کسی کی اس تک رسائی نہیں ہوسکتی، جیسا کہ ان تینوں معافی کو اوپر واضح کردیا گیا۔ والحمدللّٰہ۔ سو اس صفت کریمہ کے ذکر استعمال سے ان تمام شرکیہ تصورات اور من گھڑت خیالات کی جڑ نکل جاتی ہے جو لوگوں نے از خود اپنی من گھڑت دیویوں، دیوتاؤں اور اپنی خود ساختہ اور فرضی ددہمی سرکاروں، اور ہستیوں وغیرہ کے بارے میں قائم کر رکھے ہیں اور جن میں اصل اہمیت انہیں فرضی اور وہمی چیزوں کو دی گئی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ، سبحانہ وتعالیٰ ۔ [ 69] اللہ بڑی ہی عظمت اور بڑائی والا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو وہ متکبر یعنی سب سے بڑا اور حقیقی معنوں میں سب سے بڑا ہے اور ہر نقص و عیب سے بلند وبالا ہے۔ اصل اور حقیقی عظمت و بڑائی اسی کو اور صرف اسی کو سزا وار ہے، پس اس کی مخلوق میں سے کسی کو بھی اپنی بڑائی کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں، کہ عظمت وکبریائی اور بزرگی و بڑائی اسی وحدہٗ لاشریک کی شان اور اسی کا حق ہے۔ اس کے سوا جس کو بھی کوئی عظمت اور بڑائی حاصل ہے، وہ اس کی ذاتی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطاء کردہ اور اسی کی بخشی ہوئی ہے اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ جب تک اس وحدہٗ لاشریک کو منظور ہوگا، سبحانہ وتعالیٰ ، اور انسان کا جب خود اپنا وجود ہی دائمی اور ابدی نہیں تو پھر اس کی کسی صفت کے ابدی ہونے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ جبکہ اس وحدہٗ لاشریک کی عظمت اور بڑائی اس کی ذاتی اور زالی و ابدی صفت و شان ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو کبریائی اللہ تعالیٰ ہی کا ھق اور اسی کی صفت خاصہ ہے، کہ وہی وحدہ لاشریک ہے جو مخلوقات کی تمام صفات اور ایسے تمام تصورات سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے۔ اور یہ شان اس کے سوا اور کسی کی بھی نہیں ہوسکتی۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اسی لیے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا گیا۔ العظمۃ از اری والکبریاء ردانی فمن ناز عنی واحداً منھما عدبتہ۔ یعنی " عظمت میری ازار ہے اور کبریائی میری ردائ، پس جس نے ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی مجھ سے جھگڑا کیا میں اس کو عذاب دوں گا "۔ [ ابن کثیر، ابن جریر اور قرطبی وغیرہ ] ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اور یہ شان جب اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہوسکتی ہے تو پھر معبود حقیقی بھی وہی وحدہ لاشریک ہے جو کہ ہر قسم کے شرک اور اس کے ہر شائبہ سے پاک ہے۔ اس لئے آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ پاک ہے ان تمام چیزوں سے جن کو یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں " سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس معبود برحق اور مسجور برحق وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ جل جلالہ وعم نوالہ اللّٰہم وخذنا بنواصنا الی ما فیہ حبک ورضاک بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔
Top