Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
مگر (اس کے باوجود) انہوں نے اللہ کا شریک بنادیا جنوں کو، حالانکہ پیدا اسی (وحدہ لاشریک) نے کیا ہے ان سب کو اور انہوں نے از خود گھڑ لیئے اس کے لئے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی بغیر کسی علم (اور دلیل) کے وہ پاک اور برتر ہے ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں
194 خالق سب کا اللہ ہی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سب دلائل قدرت کے باوجود ان لوگوں نے اللہ کا شریک بنادیا جنوں کو حالانکہ اسی وحدہ لا شریک نے پیدا فرمایا ان سب کو۔ سو جب ان سب کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کیسے ہوسکتا ہے ؟ پس ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ اس کے سوا کسی کو بھی اسکا شریک وسہیم جاننا شرک ہے جو کہ ظلم عظیم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ کائنات کی تو ایک ایک چیز حضرت خالق ۔ جَلَّ مَجْدہٗ ۔ کی وحدانیت ویکتائی کی شہادت فراہم کر رہی ہے لیکن ان لوگوں کی خردباختگی اور مت ماری کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے جنوں بھوتوں کو بھی اس وحدہٗ لاشریک کا شریک بنا ڈالا ہے۔ چناچہ مشرکین عرب جن چیزوں کو خدا کا شریک مانتے تھے ان میں ملائکہ، جنات اور کواکب وغیرہ سب ہی شامل تھے۔ لیکن یہاں سب سے پہلے جنات کا ذکر کر کے ان لوگوں کی حماقتوں کو واضح فرمایا گیا ہے کہ کہاں اس خدائے واحد کی وحدانیت ویکتائی کی وہ شانیں جو اوپر بیان ہوئیں اور کہاں ان اندھوں اور اوندھوں کی مت ماری اور اوندھے پن کے یہ نمونے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 195 ظالموں نے اللہ کیلئے اولاد گھڑ لی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے از خود اس کے لیے بیٹے بھی کھڑ لیے اور بیٹیاں بھی بغیر کی علم [ اور دلیل ] کے۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے اس کے لئے بیٹے تجویز کئے ہیں۔ چناچہ یہود نے کہا کہ " عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں " اور مشرکین مکہ نے کہا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں وغیرہ۔ اور آج کے کلمہ گو مشرکوں نے بھی اسی طرح کے بہت سے شرکیہ عقیدے گھڑ رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھی اپنی خود ساختہ سرکاروں کے نام بھی زنانہ رکھے ہوئے ہیں مثلا ً " سہیلی سرکار "، " سہاگن سرکار "، " نویلی سرکار " وغیرہ وغیرہ۔ اور ان میں انہوں نے حاجت روائی و مشکل کشائی کے اختیارات بھی مان رکھے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے احیاء و اماتت جیسی خدائی صفات بھی اپنی ان خود ساختہ ہستیوں اور سرکاروں کو تفویض کر رکھی ہیں۔ اور اسی بناء پر یہ لوگ ان سے طرح طرح کی مرادیں مانگتے، ان کے آگے سرٹیکتے، سجدے کرتے اور طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور وہاں کے مجاور اس طرح کے سادہ لوح عوام کو ڈرا دھمکا کر اپنا الو سیدھا کرتے، نذرانے بٹورتے اور اپنے تن و توش کا سامان کرتے ہیں کہ بھئی اگر تم نے فلاں بزرگ کے نام کی نیاز نہ دی، فلاں آستانہ پر نذرانہ پیش نہ کیا، فلاں پیر صاحب کے نام کی گیا رھویں نہ دی تو تمہیں یہ اور یہ اور ایسا اور ایسا نقصان ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ تمہاری گائے بھینس کو مار دیں گے۔ اس کا دودھ خشک کردیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اللہ تعالیٰ ایسے تمام تصورات اور جملہ شرکیات سے پاک اور بری ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ وہ ہر طرح سے واحد و احد اور یکتا ہے، اور اس کی صفت و شان جو اس نے خود بیان فرمائی یہ ہے { لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ} ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 196 اللہ تعالیٰ کی شان تنزیہ و تقدیس کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ پاک اور بالاوبرت ہے ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔ سو اللہ پاک ہے ہر نقص و عیب اور ہر شائبہ شرک سے۔ اور وہ پاک ہے ان تمام تصورات سے جو لوگوں نے ازخود اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے بارے میں اور اس کی صفات علیا سے متعلق قائم کر رکھے ہیں۔ سو وہ پاک ہے ان سب باتوں اور ایسے تمام تصورات سے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو بظاہر یہ کلمہ محض ایک تنزیہی کلمہ ہے لیکن اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو اس کے اندر توحید کی ایک بہت بڑی دلیل بھی موجود ہے کیونکہ عقل و فطرت کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی طرف کوئی ایسی صفت منسوب نہ کی جائے جو اس کی ثابت و مسلم اور بدیہی صفات سے معارض اور ان کے منافی ہو۔ ورنہ اپنی ہی مانی ہوئی ایک حقیقت دوسرے مفروضے سے باطل قرار پائیگی۔ مثلاً ایک شخص اگر بادشاہ ہے تو اس کی طرف غلامی کی کوئی بھی صفت منسوب نہیں ہوسکتی۔ فرشتہ ہے تو اس کی طرف شیطان کی کسی صفت کو منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح جو ذات خالق ومالک، رحمن و رحیم، علیم و قدیر اور حلیم و کریم ہے اس کو مخلوق کی صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ متصف کرنا اس کی ان تمام صفات کی نفی کے مترادف ہوگا جن کو ماننا از روئے عقل و فطرت واجب ہے اور جن کی نفی سے انسان پھر ان تمام تاریکیوں میں گھر جاتا ہے جن سے اس کو ان صفات کے علم کی روشنی ہی نے نکالا تھا۔ سو خدا کو ماننے کے بعد اگر جنات اور فرشتوں کو اس کا شریک قرار دے دیا اور اس کو بیٹیوں اور بیٹوں کا باپ بنادیا تو پھر وہ خدا کہاں ہے ؟ پھر تو اس کے کفو اور ہمسر بھی پیدا ہوگئے۔ اس کی ذات برادری کے شریک بھی نکل آئے تو ایسے میں توحید خداوندی کا وہ عقیدئہ صافیہ کہاں اور کیسے باقی اور برقرار رہ سکتا ہے ؟ جو کہ دین حنیف کی اساس و بنیاد ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top