Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 108
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ١۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور لَا تَسُبُّوا : تم نہ گالی دو الَّذِيْنَ : وہ جنہیں يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَيَسُبُّوا : پس وہ برا کہیں گے اللّٰهَ : اللہ عَدْوًۢا : گستاخی بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےسمجھے بوجھے کَذٰلِكَ : اسی طرح زَيَّنَّا لِكُلِّ : ہم نے بھلا دکھایا ہر ایک اُمَّةٍ : فرقہ عَمَلَهُمْ : ان کا عمل ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب مَّرْجِعُهُمْ : ان کو لوٹنا فَيُنَبِّئُهُمْ : وہ پھر ان کو جتا دے گا بِمَا : جو وہ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
اور تم گالی مت دینا (اے مسلمانو ! ) ان کو جن کو (پوجتے) پکارتے ہیں یہ (مشرک) لوگ، کہ کہیں اس کے جواب میں یہ گالیاں نہ بکنے لگیں اللہ (پاک) کو (ظلم و) زیادتی کی بنا،4 پر بغیر کسی علم کے اسی طرح خوشنما بنادیا ہے ہم نے ہر گروہ کے لئے اس کے لئے اس کے عمل کو، اخر کار ان سب کو لوٹ کر بہر حال اپنے رب ہی کے حضور پہنچنا ہے تب وہ بتا دیگا ان کو وہ سب کچھ جو یہ لوگ کرتے رہے تھے (زندگی بھر)
206 مسلمانوں کو مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا کہنے کی ممانعت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ گالی مت دو ان کو جن کو یہ مشرک لوگ پوجتے پکارتے ہیں اللہ کے سوا کہ کہیں اس کے نتیجے میں یہ لوگ اللہ کو گالی نہ بکنے لگیں۔ لیکن ظلم و زیادتی کی بنا پر بغیر کسی علم کے۔ سو اس ارشاد سے حضر تِ حق ۔ جل مجدہ ۔ کی عظمت شان سے متعلق ایک ادب منیع کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی کہ تم مشرکوں کے معبودوں کو برا بھلا مت کہو کہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں برا بھلا کہنے پر اتر آئیں بغیر کسی علم کے۔ اللہ پاک کی عظمت شان اور قدوسیت کے بارے میں جیسا کہ مشرکین نے کہا تھا کہ اگر تم ہمارے معبودوں کو برا کہنے سے باز نہ آئے تو ہم تمہاے خدا کو گالی دیں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ (روح، ابن کثیر، جامع البیان وغیرہ) ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات دینی مصلحت کی بناء پر کسی جائز اور مباح کام کو چھوڑ دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے جب کہ اس پر کسی بڑے فتنہ و فساد کے مرتب ہوجانے کا اندیشہ ہو ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ علم کی روشنی سے محرومی انسان کو طرح طرح کی ہولناک ہلاکتوں سے دوچار کردیتی ہے۔ اسی لیے یہاں بغیر علم کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ حضرت حق ۔ جَلَّ مَجْدُہٗ ۔ کی ذات اقدس و اعلیٰ کے بارے میں ایسی کافرانہ اور باغیانہ جسارت ایسے ہی بدبخت کرسکتے ہیں جو نور علم کی دولت سے محروم ہوں مگر علم سے مراد حق اور حقیقت سے آگہی بخشنے والا وہی علم ہے جو کہ حقیقت میں علم ہے نہ کہ وہ رسمی، رواجی اور ظاہری علم جو مادیات اور محسوسات ہی تک محدود ہے کہ وہ علم درحقیقت { لَایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ } کے درجے میں ہے اور بس۔ اس لئے حق اور حقیقت کے علم کے مقابلے میں وہ علم علم کہلانے کا مستحق ہی نہیں، جیسا کہ ابنائے دنیا نے سمجھ رکھا ہے۔ 207 ہر گروہ کے لئے اس کے عمل کو خوشنما بنادیا گیا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی طرح ہم نے خوشنما بنادیا ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو جس کی بنا پر وہ اپنے عمل ہی کو اچھا سمجھتا ہے۔ سو اس سے ایک عظیم الشان سنت کونیہ کو بیان فرمایا گیا ہے کہ ہر گروہ کیلئے اس کے عمل کو خوشنما بنادیا جاتا ہے۔ چناچہ اہل حق کو ایمان و اطاعت کا طریقہ اچھا لگتا ہے جو کہ اصل میں اور حق و حقیقت کے اعتبار سے ہے ہی اچھا۔ اور ایسا اچھا کہ دارین کی سعادت و سرخروئی کا ضامن و کفیل ہے۔ اور اہل کفر و باطل کو وہی راستہ و طریقہ اچھا لگتا ہے جس کو انہوں نے اپنایا۔ اسی طرح اہل معصیت کو معصیت کا طریقہ اچھا لگتا ہے۔ پھر کفر و باطل، فسق و فجور اور معصیت و نافرمانی کی شکلیں اور صورتیں آگے مختلف ہیں۔ اور جو کوئی ان میں سے جس پر کاربندو عمل پیرا ہے وہ اسی کو اچھا سمجھتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْن } ۔ (الروم : 32) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اصل اساس و بنیاد انسان کا اپنا اختیار اور اس کی نیت و ارادہ ہے۔ سارا دارومدار اسی کی صحت و بگاڑ پر ہے۔ جسیے کسی کی نیت ہوگی ایسے ہی اس کو اس کا صلہ اور بدلہ ملے گا۔ اور جو راستہ کوئی اپنی مرضی اور شوق سے اپنائے گا اس کو ادھر ہی پھیر دیا جائے گا۔ سو اس ارشاد ربانی میں قدرت کی اس سنت کونیہ کا ذکر وبیان ہے کہ ہر گروہ کیلئے اس کے عمل کو خوشنما بنادیا گیا ۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ وضلال - 208 رب تعالیٰ کے یہاں جواب دہی کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخرکار ان سب کو لوٹ کر بہرحال اپنے رب کے حضور ہی پہنچنا ہے تب وہ ان کو وہ سب کچھ بتادے گا جو یہ لوگ کرتے رہے تھے اپنی دنیاوی زندگی میں۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ہر کسی کو اس کے رب کے یہاں زندگی بھر کا کیا کرایا سب کچھ بتادیا جائے گا۔ اور ہر کسی کو یہ بتانا کوئی رپورٹ پیش کرنے کے طور پر نہیں ہوگا کہ ان کو بتادیا جائے گا کہ تم نے زندگی میں یہ اور یہ کام کئے تھے اور بس۔ نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انکو اپنی زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا زندگی بھر کا وہ کیا کرایا جس کا اب تمہیں بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔ اچھے کا اچھا اور برے کا برا۔ سو اچھی اور نیک زندگی گزارنے والا خوش ہوگا اور وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے گا کہ اس کی زندگی بھر کی محنت ٹھکانے لگی۔ اور اس کو بھرپور بدلہ اور جزاء سے نواز دیا گیا۔ اور اس کو اب دائمی راحت اور کامیابی کی سعادت حاصل ہوگئی ۔ اللہ ہم سب کو ایسا ہی نصیب فرمائے ۔ آمین۔ جبکہ اس کے برعکس باغیانہ اور سرکشانہ زندگی گزارنے والا اپنے آپ ہی کو ملامت کرے گا کہ یہ سب کچھ اس کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوگی اور وہ رہ رہ کر افسوس کرے گا اور حسرت بھرے انداز میں کہے گا کہ کاش کہ مجھے میرا نامہ اعمال نہ ملتا اور مجھے دوبارہ نہ اٹھایا جاتا۔ مگر اس سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سو قرآن حکیم کا دنیا پر کس قدر احسان عظیم ہے کہ اس نے عالم غیب کے ان عظیم الشان اور جلیل القدر حقائق کو اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا اور اس قدر پیشگی اور حیات دنیا کی اس فرصت مستعار میں تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے ۔ وباللہ التوفیق ۔ فہل من مد کر ؟-
Top