Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندگی بخشی، اور اسکو نواز دیا ایک ایسی عظیم الشان روشنی سے جس کے اجالے میں وہ چلتا ہے لوگوں کے درمیان کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو پڑا ہوا ہے اندھیروں میں ؟ کہ وہ ان سے نکلنے ہی نہ پاتا ہو،2 اسی طرح خوش نما بنا دیئے گئے کافروں کے لئے ان کے وہ کام جو وہ کرتے رہے ہیں،
236 کفر و شرک موت ہے اور کافر و مشرک مردہ : سو ارشاد فرمایا گیا بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندگی بخش دی۔ یعنی وہ کفر و باطل کی موت میں پڑا تھا اور طرح طرح کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ سو کفر و شرک موت ہے اور کافر و مشرک انسان مردہ اگرچہ دنیا ان کو زندہ کہتی ہو اور وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہوں۔ سو اس آیت کریمہ میں موت سے مراد کفر کی زندگی ہے اور حیات سے مراد ایمان کی زندگی۔ اور نور سے مراد ایمان و یقین کا نور ہے۔ سو کوئی مانے یا نہ مانے، تسلیم کرے یا نہ کرے، حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ کفر موت ہے اور ایمان زندگی۔ کفر اندھیرا ہے اور ایمان روشنی اور کافر مردہ ہے اور مومن زندہ ۔ فالحمد للہ الذی شرفنا بنعمۃ الایمان ۔ اللہم فزدنا منہ وثبتنا علیہ یا ذا الجلال والاکرام - 237 ایمان و یقین زندگی ہے اور مومن زندہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر جس کے بعد وہ اس روشنی کے ساتھ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے اس کو ہم نے زندہ کردیا ہو نور ایمان عطا کر کے۔ سو معلوم ہوا کہ کافر و مشرک مردہ ہے اگرچہ وہ دنیا میں کتنا ہی بڑا دانا کیوں نہ بنا ہوا ہو۔ اور مومن زندہ ہے بلکہ وہ ایک حیات آفرین زندگی سے بہرہ ور ہوتا ہے اگرچہ وہ نان جویں تک کا محتاج ہی کیوں نہ ہو کہ زندگی اصل میں دل ہی کی زندگی ہے۔ اور وہ بنتی اور حاصل ہوتی ہے ایمان و یقین کی قوت اور اس کے نور سے۔ بہرکیف اس ارشاد سے اہل ایمان اور اہل کفر و شرک کی زندگیوں کے فرق کو تمثیل کے ذریعے واضح فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و یقین کے نور سے مشرف فرما کر زندگی بخش دی ہے اور وہ موت کے بعد زندگی سے سرفراز و بہرہ ور ہوگئے ہیں جبکہ اہل کفر و باطل اپنے اختیار کردہ کفر و باطل کے اندھیروں ہی میں غلطاں و پیچاں ہیں، جس کے باعث ان کو نہ سیدھی راہ سے متعلق کوئی بات سوجھتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے نفع و نقصان کو پہچان سکتے ہیں۔ جبکہ اہل ایمان اپنے ایمان و یقین کی روشنی سے سرفراز ہو کر حق و ہدایت کی سیدھی راہ پر چل رہے ہیں اور وہ اپنے نفع و نقصان سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اور ان کے دل ایمان و یقین کے نور سے منور ہیں ۔ والحمد للہ جل وعلا - 238 کفر و باطل اندھیرا ہی اندھیرا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جس کو ہم نے ایک عظیم الشان روشنی کے ساتھ نوازا ہو جس کے ساتھ اور اس کے اجالے میں وہ چلتا ہو لوگوں کے درمیان۔ کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو [ تہ در تہ ] اندھیروں میں پڑا ہو اور اس طور پر کہ وہ ان سے نکلنے ہی نہ پاتا ہو ؟ اور استفہام یہاں پر ظاہر ہے انکار کے لیے ہے۔ یعنی یہ ایک کھلی اور واضح حقیقت ہے کہ ایسے دونوں شخصوں کے باہم برابر ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوسکتا کہ ایک اجالا در اجالا کے اندر ہے اور دوسرا تہ در تہ اندھیروں کے اندر۔ سو نور ایمان سے محروم لوگ کفر و باطل کے ان مہیب اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پڑے ہیں جو ان ظاہری اور حسی اندھیروں سے کہیں بڑھ کرمہیب اور خطرناک ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ یہ ظاہری اور حسی اندھیرے کسی کیلئے نار جہنم کا باعث نہیں بنتے جبکہ کفر و باطن کے یہ معنوی اور باطل اندھیرے انسان کو دوزخ کے ہولناک گڑھے میں اتار کر چھوڑتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ مومن اپنے اس نور ایمان کے ساتھ لوگوں کے درمیان چلتا ہے تو اس میں اس بارے ترغیب وتحریض کا پہلو بھی ہے کہ مومن کو لوگوں کے درمیان رہنا چاہیئے تاکہ جن کے اندر صلاحیت ہو وہ اس کے نور سے استفادہ کرسکیں اور اس طرح ان کا بھلا ہوسکے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ کفر و باطل اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور ایمان و یقین نور ہی نور جس سے ایمان والے مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ دکھاتے ہیں۔ تو کیا یہ دونوں گروہ باہم ایک برابر ہوسکتے ہیں ؟ سو ان دونوں کو اگر باہم ایک برابر مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ روشنی اور اندھیرا دونوں ایک برابر ہوگئے جو کہ عقل و فطرت کے خلاف اور بداہت کے منافی ہے۔ سو کفر و باطل اور ایمان و یقین کبھی باہم برابر نہیں ہوسکتے۔ ایمان و یقین کی راہ دائمی اور سدا بہار کامیابی کی راہ ہے اور کفر و انکار ہمیشہ کی محرومی کی ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 239 کفر و باطل کی ایک نقد سزا کہ ان لوگوں کے لیے ان کے برے اعمال کو خوشنما بنادیا جاتا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی طرح خوشنما بنادیا جاتا ہے کافروں کے لیے ان کے ان اعمال کو جو وہ کرتے رہے ہیں۔ جس کے باعث وہ حق و ہدایت کے نور مبین کے مقابلے میں کفر و باطل کے ان سیاہ اندھیروں میں ڈوبے اپنے انجام سے غافل و بےفکر دائمی عذاب اور ہولناک تباہی کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد عالی میں خداوند قدوس کی ایک سنت اور اس کے دستور کو بیان فرمایا گیا ہے جو اس کائنات میں جاری وساری ہے کہ جو کوئی جس رویئے کو اپناتا ہے اس کو اسی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اور اسی کو اس کی نگاہوں میں خوشنما بنادیا جاتا ہے۔ جس سے وہ اسی کو اچھا سمجھنے لگتا ہے اور اس کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اور اس طرح وہ اپنی اختیار کردہ غلط روش پر اور پکا اور راہ حق سے اور دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ سو یہ اہل کفر وباطل کے لیے ایک نقد سزا ہوتی ہے جو ان لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں دی جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top