Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 70
قَالُوْۤا اَوَ لَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَوَ : کیا لَمْ نَنْهَكَ : ہم نے تجھے منع نہیں کیا عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
انہوں نے (پوری ڈھٹائی اور بدبختی سے) کہا، کیا ہم نے تمہیں روکا نہیں دنیا بھر کے لوگوں (کی مہمان نوازی کا دم بھرنے) سے،3
57۔ قوم لوط کے تمردوسرکشی کی انتہاء اور اس کی عبرتناک انجام : سو انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی اس دلیل کے جواب میں کہا کہ ہم نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا مگر تم نے ہماری بات نہ مانی۔ اور آج پھر ان خوبصورت لڑکوں کو اپنے گھر مہمان بنا کر ٹھہرالیا۔ سو اگر تم ہمارے کہنے کے مطابق اور ہمارے روکنے کے بعد ان مہمانوں کو اپنے یہاں پر ٹھہراتے تو یہ نوبت نہ آتی اور آج تمہیں اپنے ان مہمانوں کی بناء پر اس طرح رسوائی اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لہذا اس رسوائی اور فضیحت کا سبب تم خود ہو۔ سو اس سے اس منحوس قوم کے تمرد اور اس کی سرکشی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اور جب کسی قوم کی تباہی کا وقت آچکا ہوتا ہے تو اس کے لچھن اسی طرح کے ہوجاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اس طرح ایسی قوم اپنے عمل و کردار سے واضح کردیتی ہے کہ اب اس کا وجود ہر خیر سے عاری اور محروم ہوگیا ہے۔ لہذا اب اس کے باقی رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔ سو ایسے میں اس طرح کی قوم کو ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے اور وہ قصہ پارینہ اور دوسروں کے لیے ہمیشہ کے لیے درس عبرت بن جاتی ہے۔ جیسا کہ قوم لوط کیساتھ ہوا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو قوموں کے عروج وزوال کا انحصار ان کے اخلاق و کردار پر ہوتا ہے۔ وہ اخلاقی برتری ہی سے ترقی اور عروج پاتی ہیں اور اخلاقی تنزلی ہی سے تباہ ہوتی ہیں۔
Top