Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 57
قُلْ اِنِّیْ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ كَذَّبْتُمْ بِهٖ١ؕ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّيْ : اپنا رب وَكَذَّبْتُمْ : اور تم جھٹلاتے ہو بِهٖ : اس کو مَا عِنْدِيْ : نہیں میرے پاس مَا : جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کر رہے ہو بِهٖ : اس کی اِنِ : صرف الْحُكْمُ : حکم اِلَّا : مگر (صرف) لِلّٰهِ : اللہ کیلئے يَقُصُّ : بیان کرتا ہے الْحَقَّ : حق وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہتر الْفٰصِلِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
کہو کہ میں تو بہر حال ایک روشن دلیل پر قائم ہوں اپنے رب کی طرف سے اور تم لوگوں نے اس کو جھٹلا دیا ہے میرے اختیار میں نہیں ہے، وہ چیز جس کی تم لوگ جلدی مچا رہے ہو، حکم تو بس اللہ ہی کا ہے، وہی بیان کرتا ہے حق کو اور وہی ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والاف 1
96 دین حق کا ہر حکم روشن دلیل پر قائم ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کہو کہ میں تو بہرحال ایک روشن دلیل پر قائم ہوں اپنے رب کی طرف سے۔ یعنی اس دین حق اور شریعت مقدسہ پر جس سے میرے رب نے مجھے بذریعہ وحی نوازا ہے اور جس کا ہر امر و ارشاد واضح دلیل وبرہان پر مبنی اور عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ (صفوہ، محاسن، مراغی، روح وغیرہ) ۔ اور اس سے اعراض و انحراف نور حق و ہدایت سے اعراض و انحراف اور ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس " بینہ " یعنی روشن دلیل کا سب سے بڑا مظہر و مصداق قرآن حکیم ہے جو کہ حضرت حق ۔ جل مجدہٗ ۔ کی طرف سے بذریعہ وحی عطا فرمایا گیا ہے۔ اور جس کا ہر حکم و ارشاد مبنی برحق و صداقت اور عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پس جو لوگ اس نور حق و ہدایت سے محروم ہیں وہ راہ حق و صواب سے محروم تہ در تہ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خواہ وہ دنیاوی اعتبار سے کتنے ہی ہوشیار و چالاک کیوں نہ ہوں۔ اور روشن خیالی کے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں۔ سو دین حق سے منہ موڑنا اپنے آپ کو اندھیروں کے حوالے کرنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 97 پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ میرے پاس اور میرے بس اور اختیار میں نہیں ہے وہ کچھ جس کے لیے تم لوگ جلدی مچاتے ہو ۔ { مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہ } ۔ یعنی وہ عذاب جس کا کہ تم لوگ مطالبہ کرتے ہو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ان لوگوں کا یہ قول اس طرح نقل فرمایا گیا ہے ۔ { وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَائِ اَوِئتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ } ۔ (الانفال : 32) سو یہ تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ تم کو کب تک مہلت ملے گی اور کب اور کس شکل میں وہ تم کو عذاب میں پکڑے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس سے اہل بدعت کے مختار کل کے شرکیہ عقیدے کی صاف وصریح طور پر نفی ہوتی ہے اور یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتا کہ وہ جو چاہے کرے اور جب اور جیسا چاہے کرے۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی صفت و شان ہے۔ چناچہ صاف وصریح طور پر فرماتے ہیں اور اللہ کے حکم و ارشاد سے فرماتے ہیں کہ وہ عذاب جس کیلئے تم لوگ جلدی کر رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ میں تو اپنے رب کی طرف سے ملنے والی قطعی حجت، واضح برہان اور روشن دلیل پر قائم ہوں اور اسی کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اور یہ ایسی واضح بین اور قطعی شہادت ہے جس کی تکذیب کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر تم لوگ ہو کہ پھر بھی اس کی تکذیب کرتے ہو اور اس کو سمجھنے، ماننے اور صدق دل سے اپنانے کی بجائے مجھ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہو۔ سو یہ عذاب جس کا تم لوگ مطالبہ کرتے ہو میرے پاس نہیں بلکہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہی جب چاہے گا اور جیسے چاہے گا تم لوگوں پر برپا کر دے گا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس کے بعد تمہارے لیے سدھرنے اور بچنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ سو بڑے بدبخت ہیں وہ لوگ جو عذاب سے بچنے کی فکر کی بجائے اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ - 98 حکم تو بہرحال اللہ ہی کا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے اسلوب میں و انداز میں ارشاد فرمایا گیا کہ حکم تو بہرحال اللہ ہی کا ہے۔ پس وہ جب چاہے اور جو چاہے حکم دے۔ اور وہی جانتا ہے کہ تمہارے بارے میں کب اور کیا حکم صادر ہو ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو حکم اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے اور حاکم مطلق وہی وحدہ لاشریک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی اور حق و صداقت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت دی جائے اور کس پر کب عذاب واقع کیا جائے۔ سو اس معاملے کا فیصلہ بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ میں جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ اس نے ایسا فیصلہ کرنا ہے اور ضرور کرنا ہے۔ تاکہ حق و باطل کے درمیان نزاع کا فیصلہ آخری اور عملی طور پر ہوجائے اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بھرپور طریقے سے پورے ہوں۔ لیکن اس کے یہاں ہر چیز کے لئے ایک وقت مقرر ہے ۔ { وَکُلُّ شَیْئٍ عِنَدَہٗ بِمِقْدَارٍ } ۔ پس تمہارے لیے خیر اسی میں ہے کہ تم کو قبول کر کے اس کے آگے جھک جاؤ۔ 99 سب سے اچھا فیصلہ اللہ ہی کا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا کہ وہ حکیم بھی ہے اور حاکم بھی۔ اور لطیف بھی اور خبیر بھی۔ اور اس کا فیصلہ بےلاگ اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ سبحا نہ و تعالیٰ ۔ اور اس کا علم ظاہر و باطن، حال و مآل اور ماضی و مستقبل سب پر حاوی و محیط ہے۔ اور یہ شان اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کسی کی ممکن ہی نہیں۔ اس لیے اس جیسا صحیح صاف عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق اور بےلاگ و کھرا فیصلہ اور کسی کا ہوسکتا ہی نہیں۔ اس لیے ہم اپنا معاملہ اسی کے حوالے کرتے ہیں ۔ سو عذاب کے لئے جلدی مچانے والوں کے ساتھ وہ خود نمٹ لیگا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق نمٹے گا اور وقت آنے پر اس کا عذاب نہ گھڑی بھر آگے ہو سکے گا نہ پیچھے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ، فَاِذَا جَآئَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقدِمُوْنَ } ۔ (الاعراف : 33) ۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ ، وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ } ۔ (الحج : 47) ۔ سو تم لوگ اس کے فیصلوں کو اپنے محدود پیمانوں کے مطابق مت دیکھو اور سوچو۔ اور اس کے لیے جلدی مت مچاؤ بلکہ اس سے بچنے کی فکر کرو کہ اس نے اپنے وقت پر بہرحال آ کر رہنا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top