Tafseer-e-Madani - At-Taghaabun : 8
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَا١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ : پس ایمان لاؤ اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَالنُّوْرِ : اور اس نور پر الَّذِيْٓ : وہ جو اَنْزَلْنَا : اتارا ہم نے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
پس تم ایمان لے آؤ اللہ پر اس کے رسول پر اور اس نور پر جسکو ہم نے اب اتارا ہے اور اللہ کو پوری خبر ہے ان سب کاموں کی جو تم لوگ کرتے ہو
16 ۔ دلائل قدرت کا نتیجہ و تقاضا، ایمان باللہ : سو اس لیے ان دلائل کے نتیجے اور تقاضے کے طور پر ایمان باللہ کی دعوت دی گئی ہے، چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ پس تم لوگ ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کے نور پر، جس کو ہم نے اتارا ہے۔ یعنی قرآن حکیم پر جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہ دکھاتا ہے، اور جو کہ ایک ایسا عظیم الشان اور بےمثل نور ہے کہ اس کے سامنے سورج اور چاند وغیرہ کے تمام نور ہیچ اور بےمعنی ہیں اور جو کہ حق اور حقیقت کی راہوں کو روشن کرتا ہے اور یہ وہ ایک نور عظیم ہے جس سے حق اور باطل کے درمیان فرق و امتیاز پوری طرح واضح ہوجاتا ہے، پس تم لوگ اس کی قدر کرو کہ یہ وہ نعمت عظمی ہے جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن ہی نہیں، اور اس پر ایمان اور اس کی اتباع اور قدر دانی انسان کو دارین کی سعادت و سرخوئی سے ہمکنار و سرفراز کرنے کے لیے شاہ کلید ہے، جبکہ اس سے اعراض و روگردانی دارین کی سعادت و سرخروئی سے محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو " فامنو " کی فاء تفریع سے یہ درس دیا گیا کہ جب عقل و نقل کے ان دلائل سے حق پوری طرح واضح ہوگیا تو اس کے نتیجے میں اور اس کے لازمی تقاضے کے طور پر تم لوگ صدق دل سے ایمان لے آؤ اللہ پر اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے اتارا ہے، جو کہ سعادت دارین کی راہوں کو روشن اور واضح کرنے والا عظیم الشان اور بےمثال نور ہے، اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذ باللہ۔ پس تم لوگ صدق دل سے اس پر ایمان لے آؤ کہ یہی تقاضائے عقل و نقل ہے اور اسی میں تمہارا بھلا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الی سواء السبیل فعلیہ نتوکل وبہ نستعین۔ 17 ۔ اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو، اسی کے مطابق وہ تمہیں جزا و سزا سے نوازے گا، پس اس کے ساتھ اپنا معاملہ درست رکھنے کی ہمیشہ فکر و کوشش کرتے رہا کرو، اور کبھی تم کہیں اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ جو کچھ تم لوگ کرتے ہو وہ اس سے بیخبر ہے، بلکہ جو کچھ بھی تم لوگ کرتے وہ سب اس کے علم میں ہے، اور ایک دن وہ سب کچھ تمہارے سامنے آجائے گا، سو اس ارشاد میں نیکوکاروں کے لیے تبشیر و تحضیض ہے کہ ایسے لوگ مطمئن رہیں کہ ان کا کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا، اس لیے وہ کسب خیرات میں اور آگے بڑھیں، وباللہ التوفیق۔ اور دوسری اس میں بدکاروں کے لیے تنبیہ و تذکیر ہے کہ وہ اپنی بدکاری سے باز آجائیں اور اپنی غلط روی کو ترک کر کے راہ حق و ہدایت پر آجائیں قبل اس سے کہ فرصت عمر ان کے ہاتھ سے نکل جائے، اور پھر ہمیشہ کے لیے کف افسوس ملنا پڑے، اور یہی ہے خساروں کا خسارہ، والعیاذ باللہ العظیم، من کل زیغ و ضلال، و سوء و انحراف بکل حال من الاحوال،
Top