Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 19
فَطَافَ عَلَیْهَا طَآئِفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَ هُمْ نَآئِمُوْنَ
فَطَافَ : تو پھر گیا عَلَيْهَا : اس پر طَآئِفٌ : ایک پھرنے والا مِّنْ رَّبِّكَ : تیرے رب کی طرف سے وَهُمْ نَآئِمُوْنَ : اور وہ سو رہے تھے
پھر (کیا تھا) رات کو ہی پھیرا لگا لیا تمہارے رب کی طرف سے ایک آفت نے جب کہ یہ لوگ سوئے پڑے تھے
15 باغ پر گردش عذاب کے چکر کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر چکر لگا لیا اس باغ پر تمہارے رب کی طرف سے ایک آفت نے جبکہ وہ اور یہ آفت ایک آسمانی آگ کی صورت میں آئی اور اس نے ان کے اس باغ کو جلا کر خاکستر کردیا، ابن جریر کہتے ہیں طائف اسی آفت کو کہا جاتا ہے جو رات کو آتی ہے، دن میں آنے والی مصیبت کو طائف نہیں کہا جاتا، (صفوۃ التفاسیر، محاسن التاویل، وغیرہ) سو یہ لوگ تو اپنے مذکورہ فیصلے پر بڑے عزم و جزم کے ساتھ مطمئن ہو کر رات کو سو گئے کہ صبح اٹھ کر باغ کے پھل کاٹیں گے، لیکن یہ رات کو ابھی سوئے ہی پڑے تھے کہ ان کے باغ پر ایک ایسی گردش آئی کہ اس نے اس کا صفایا کردیا اور اس طرح وہ کٹی ہوئی فصل کی مانند ہو کر رہ گیا اور یہ آفت آپ ﷺ کے رب کی طرف سے اس طور پر آئی کہ ان لوگوں کو اس کا کوئی وہم و گمان تک نہ تھا او اس زور و قوت اور بےپناہی کے ساتھ آئی کہ اس سے چشم زدن میں وہ ہرا بھرا باغ بےنشان ہو کر رہ گیا، والعیاذ باللہ العظیم ۔ طائف من ربک کے کلمات کریمہ میں دو اہم اور بنیادی حقیقتوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ ایک اس کے ناگہانی ہونے پر کہ وہ عذاب ایس آیا کہ ان لوگوں کو اس کا سان و گمان بھی نہ تھا اور دوسری حقیقت جو من ربک کی اس نسبت و اضافت سے ظاہر ہوتی ہے وہ اس کی بےپناہی ہے کہ اس عذاب نے چشم زدن میں وہ کرشمہ کر دکھایا کہ ان کا وہ ہرا بھرا باغ بےشنان ہو کر رہ گیا اور ایسا اور اس حد تک کہ اس کے مالکوں کو اس کی جگہ تک پہنچاننا مشکل ہوگیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top