Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 33
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ١ؕ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كَذٰلِكَ : اسی طرح ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے الْعَذَابُ : عذاب وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ : اور البتہ عذاب آخرت کا اَكْبَرُ : زیادہ بڑا ہے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اسی طرح ہوتا ہے عذاب (خداوندی) اور آخرت کا عذاب تو یقینی طور پر اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کاش یہ لوگ جان لیتے1
23 ۔ تنبیہی عذاب سے متعلق سنت الہیہ کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی طرح ہوتا ہے اللہ کا عذاب۔ جوا نسان کو اس کی سرکشی اور بدعملی کی پاداش میں کبھی اسی دنیا میں بھی آدبوچتا ہے، والعیاذ باللہ، تاکہ عبرت پکڑنے والے عبرت پکڑیں اور انکار وتکبر والے اپنے انجام کو پہنچیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون (السجدہ :21) چناچہ ایسے عذاب اس دنیا میں پہلے بھی آتے رہے اور اب بھی آئے دن آتے رہتے ہیں، جگہ جگہ آتے ہیں اور طرح طرح سے آتے ہیں، والعیاذ باللہ، مگر یہ انسان کی غفلت و لاپرواہی اور اس کی محرومی ہے کہ یہ اس سے سبق نہیں لیتا، چناچہ آج کل ہی جب کہ راقم آثم اس مقام پر یہ سطور لکھ رہا ہے (یعنی 3 مئی 1991 ء کو) سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں قیامت خیز طوفان نے یکایک ایک لاکھ بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، شہروں کے شہر تباہ و برباد ہوگئے، اس سے تین چار ماہ قبل عربوں کی خانہ جنگی کے دوران لاکھوں عراقی تہ تیغ ہوگئے اور فضائی حملے ہوئے، عرقای تعمیر و ترقی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، اتحادی فوجوں کی طرف سے عراق پر ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں لگاتار ایک لاکھ سے بھی زیادہ فضائی حملے ہوئے، ادھر کیوت کے جلنے والے تیل کنوؤں سے دھوئیں کے بادل اب تک بلند ہو رہے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس آگ پر کوئی ڈیڑھ سال کے عرصے میں قابو پایا جاسکے گا، اخباری اطلاعات کے مطابق تقریباً دو لاکھ عرقای فوج ماری گئی اور تقریباً اتنی ہی قیدی بنائی گئی اور نہایت ذلت آمیز اور شرمناک طریقے سے، والعیاذ باللہ اس سے پہلے کم و بیش دس لاکھ کرد لوگ عراقی افواج کے مظالم سے بھاگ کر برفانی پہاڑوں میں ایرانی اور ترکی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں، جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اموات واقع ہو رہی ہیں، اور دنیا ساری میں اس المیے پر شور بپا ہے اوراقوام متحدہ کی نگرانی میں ان بےگھرو بےدر لوگوں کی امداد کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں، اگرچہ اس خطے کے ان تمام المیوں کا ظاہری طور پر اصل ذمہ دار عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین ہے لیکن درحقیقت یہ قدرت کے غیبی ہاتھ کی طرف سے منلے والے عذاب عاجل کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں، والعیاذ باللہ اس سے قبل روسی جمہوریت آزربائیجان میں ایک ہولناک زلزلے سے آناً فاناً چند لمحات کے اندر نوے ہزار انسان موت کی ابدی نیند سو گئے، اس سے پہلے چرنوبل کے جوہری حادثے سے دس ہزار انسان اور بیشمار مویشی لقمہ اجل بن گئے اور یہ پورا علاقہ اس قدر متاثر ہوا کہ اب بالکل ویران پڑا ہے اور سائنس دانوں کے کہنے کے مطاق وہاں پھیلنے والے تابکاری اثرات کی بناء پر یہ علاقہ عرصہ تک رہنے بسنے کے قابل نہیں رہا، اس سے قبل ہندوستان کے شہر بھوپال میں رونما ہونے والے اسی طرح کے ایک حادثے میں ہزاروں لوگ یکایک موت کے منہ میں چلے گئی اور ہزاروں معذور بےکار ہوگئے، پھر وہاں ہندو مسلمان فسادات اور بابری مسجد مندر کے تنازع میں کچھ ہی قبل خون کی ایک خوفناک ہولی کھیلی گئی، اسی طرح امریکی ریاست کو لمبیا میں کچھ ہی قبل جو خوفناک زلزلہ تھا آیا اس نے ایسی تباہی مچائی کہ اس کے پچاس ہزار آبادی والے ایک شہر کو سرکاری طور پر ایک اجتماعی قبرستان قرار دے دیا گیا تھا، وغیرہ وغیرہ سو یہ سب تازیانے ہغیں جو قدرت کی طرف سے عبرت پذیری کے لئے برسائے جاتے ہیں اور کذالک العذاب کے نمونے ہوتے ہیں مگر عبرت کتنے لوگ پکڑتے ہیں ؟ اکثریت تو خواب غفلت سے چونکتی ہی نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہ پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین 24 اصل عذاب آخرت کا عذاب ہے۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے ہی ہوتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب تو یقینا اس سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ کاش کہ لوگ جان لیتے سو آخرت کا عذاب اتنا بڑا ہوگا کہ عقلیں اس کے احاطہ و ادراک سے اور الفاظ کلمات اس کے اظہار وبیان سے عاجز و قاصر ہیں، والعیاذ باللہ العظیم سو کذالک العذاب میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد ہی عذاب ہے جو سنت الٰہی اور دستور خداوندی کے مطابق کسی قوم پر اس وقت آیا جبکہ اس نے اپنے رسول کی تکذیب کی اور وہ اپنے اس جرم سے باز نہیں آئی اور رسول اپن افرض بلاغ ادا کرچکے، سو ایسا عذاب اس قوم کا فیصلہ کردیتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم اور اس کے بعد اس کو آخرت کے عذاب سے سابقہ پیش آئے گا جو اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہوگا۔ رسولوں نے اپنی قوموں کو ان دونوں ہی قسم کے عذابوں سے خبردار کیا، یعنی وہ تنبیہی عذاب جو کسی قوم پر اس وقت آیا ہے جب اس نے اپنے رسول کی تکذیب کی اور حق کو مان کر نہ دیا حالانکہ رسول نے اپنا فرض بلاغ پوری طرح ادا کردیا۔ سو ایسا عذاب اس قوم کا صفایا کردیتا ہے جس سے وہ قوم قصہ پارینہ اور داستانوں میں سے ایک داستان بن کر رہ جاتی ہے لیکن منکرین و مکذبین کے لئے اسی دنیاوی عذاب پر بس نہیں بلکہ ان کے لئے اصل عذاب وہ ہوتا ہے جو آخرت کے دار الحساب اور دارلجزاء میں مقرر ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ حضرات انبیاء ورسل نے اپنی اپنی قوموں کو ان دونوں ہی قسم کے عذابوں سے خبردار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ آمین ثم امین 25 منکرین کے رویئے پر اظہار حسرت و افسوس : سو منکرین و مکذبین کے اس باغیانہ سرکشانہ رویے پر اظہار افسوس کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ کاش کہ یہ لوگ جان لیتے حق اور حقیقت کو۔ اور اس کے نتیجے میں یہ حق و ہدایت کی دولت کو اپنا لیتے اور اس کے نتیجے میں یہ بچ جاتے اس ہولناک انجام سے اور فرصت عمر کے ہاتھ سے نکل جانے سے قبل یہ اپنی آخرت کے لئے تیاری کرلیتے اور اس طرح دائمی ہلاکت و تباہی سے بچ جاتے۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف یہ اظہار حسرت و افسوس کا جملہ ہے کہ عقل کے ان اندھوں اور امت کے ان ماروں کو آخرت بہت بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے اور اس بناء پر یہ اس سے نچنت اور بےفکر ہیں، حالانکہ وہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اس کا عذاب بڑا ہی سخت اور ہولناک عذاب ہے، کاش کہ یہ لوگ جان لیتے اس حقیقت کو تو اس سے ان کی زندگی کے رخ بدل جاتے، وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویریدو ہوالہادی الی سواء السبیل۔
Top