Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 43
خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ١ؕ وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ
خَاشِعَةً : نیچی ہوں گی اَبْصَارُهُمْ : ان کی نگاہیں تَرْهَقُهُمْ : چھا رہی ہوگی ان پر ذِلَّةٌ : ذلت وَقَدْ كَانُوْا : اور تحقیق تھے وہ يُدْعَوْنَ : بلائے جاتے اِلَى السُّجُوْدِ : سجدوں کی طرف وَهُمْ سٰلِمُوْنَ : اور وہ صحیح سلامت تھے
(اور اس روز ان کا حال یہ ہوگا کہ) جھکی ہوئی ہوں گی ان کی نگاہیں اور چھا رہی ہوگی ان پر ذلت (و رسوائی) اور (یہ اس لئے کہ دنیا میں) ان کو سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا (مگر یہ انکار کرتے تھے) جب کہ یہ صحیح وسالم ہوتے تھے
35 اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریزی سے محرومی سعادت دارین سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور سجدہ ریز ہونا سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے کیونکہ دنیا میں جو لوگ اس معبود برحق کے حضور سجدہ ریز نہیں رہے ہوں گے اس روز جو اس کے حضور سجدہ کر ہی نہیں سکیں گے ‘ جس کے نتیجے میں ان کی ذلت و رسوائی سب کے سامنے آشکارا ہوجائے گی اور وہ ذلت و رسوائی کی تصویر بنے کھڑے ہوں گے چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان کی نگاہیں اس روز جھکی ہوئی ہوں گی۔ اس شرم و عار کی بناء پر جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس جہاں میں اور اس موقع پر ان کو اپنے خالق ومالک اور مسجود حقیقی کے حضور سجدہ ریزی سے محرومی پر لائق ہوگی ‘ والعیاذ باللہ سو کیسی نحوست اور محرومی کی چیز ہے یہ کفر و شرک ‘ اور نفاق و ریاکاری ‘ اور کتنے محروم و بدبخت ہیں کفر و شرک اور نفاق و ریاکاری کے مارے ہوئے یہ لوگ ‘ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہر شائبہ سے ہمیشہ محفوظ رکھے ‘ اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہ پر چلنا نصیب فرمائے ‘ آمین ثم آمین۔ سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اپنے خالق ومالک کے آگے جھکنے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہونے میں بندے کی اصل اور حقیقی عزت ہے کہ یہی چیز اس کی شان عبدیت کے لائق اور اس کے رب کا اس پر حق ہے اور اسی میں اس کی حقیقی عزت و عظمت ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی کہ دنیا میں اپنے خالق ومالک کے حضور جھکنے والی پیشانی اور کہیں بھی اور کسی کے آگے بھی نہیں جھکے گی اور آخرت میں یہ سب کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھک کر سچی عزت اور ہمیشہ کی کامیابی سے سرفراز ہوگی۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید علی سبیل الدوام والتایید۔ بہر کیف اس کے منکرین و مکذبین کی ذلت و رسوائی کو واضح فرما دیا گیا کہ اس روز ان پر چھا رہی ہوگی ذلت و رسوائی یعنی کفر و شکر اور نفاق و ریاکاری کی وہ ذلت و رسوائی اور روسیاہی و بدبختی جو دنیا میں ان کے بواطن میں پوشیدہ تھی ‘ کشف حقائق کے اس جہاں میں وہ ظاہر ہو کر ان کے چہروں پر چھا جائے گی ‘ والعیاذ باللہ اور اس وقت ابناء کفر و باطل پر یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ جس کفر و باطل کو انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں اپنا رکھا تھا ‘ اور جس کو وہ بہت کچھ سمجھتے تھے وہ کوئی عزت کی چیز نہ تھی ‘ بلکہ وہ سراسر زلت و رسوائی کا سامان تھا اور عزت و عظمت صرف دولت ایمان و یقین میں تھی ‘ سو سجدے کا یہ حکم جیسا کہ ابھی اوپر گزرا ‘ محض اتمام حجرت اور ان لوگوں کی تذلیل و تخجیل کیلئے دیا جائے گا ‘ تاکہ اس طرح ان کی سرکشی اور ان کی محرومی پر خود ان کا وجود ایسی گواہی ثبت کردے جس کا وہ انکار نہ کرسکیں ‘ والعیاذ باللہ۔ سو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریزی کے شرف سے محرومی۔ والعیاذ باللہ باعث ذلت و رسائی ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی۔ کیونکہ اس دنیا میں جو لوگ اللہ وحدہ کے حضور اور اس کی رضا کیلئے نہیں جھکتے وہ جگہ جگہ اور طرح طرح کی عاجز و بےبس مخلوق بلکہ فرضی اور وہمی چیزوں کے آگے جھکتے اور اپنی تذلیل و تحقیر اور ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے ہیں اور پھر آخرت کے اس یوم حساب میں ایسے لوگوں کو اولین و آخرین کے اس عظیم الشان اور بےمثال اجتماع میں سب کے سامنے یہ ذلت و رسوائی اٹھانا پڑے گی اور اس کے بعد یہ بدبخت ہمیشہ کیلئے فی النار والسقر ہوجائیں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 36 منکرین کی تذلیل اور ان کی محرومی کے سبب کا ذکر وبیان : سو منکرین کی اس تذلیل و تحقیر اور محرومی کے سبب کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا جبکہ یہ صحیح وسالم تھے۔ مگر اس کے باوجود یہ لوگ اپنے کفر وعناد اور غرور استکبار کی بناء پر ‘ اپنے خالق ومالک کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوا کرتے تھے ‘ سو آج ان کو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کی یہ سعادت نصیب نہیں ہوسکے گی ‘ ان کی پیٹھیں تختے بن کر اکڑ چکی ہوں گی ‘ تاکہ یہ سب مخلوق کے سامنے کھڑے کے کھڑے عبرت کا نمونہ بن جائیں ‘ سو اس دنیا میں اپنے رب کے حضور اپنے شوق و ایمان کی بناء پر سجدہ ریز ہونا ایک عظیم الشان سعادت اور ذریعہ قرب خداوندی ہے ‘ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا واسجدو اقترب (العلق۔ 19) یعنی سجدہ کرتے جاؤ اور اپنے رب کے حضور قرب حاصل کرتے جاؤ ‘ سو اس سے قیامت کے اس یوم فصل وتمیز میں علی الاعلان اور سب کے سامنے عملی طور پر یہ واضح ہوجائے گا کہ دنیا میں کون لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہونے والے تھے اور کون اس سے محروم و منحرف تھے۔ اور اس طرح کھرا کھوٹا سب نکھر کر سب کے سامنے آجائے گا۔ سو وہ سعادت مند جو جو دنیا میں رب کیع بادت سے سرشار تھے وہ وہاں سجدے میں گرجائیں گے اور جو دنیا میں اس سے محروم تھے وہ وہاں بھی محروم ہوں گے۔ اور ایسے کہ ان کی محرومی اور بدبختی سب کے سامنے آشکارا ہوجائے گی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top