Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پس آپ صبر (و برداشت) ہی سے کام لیتے رہیں اپنے رب کے حکم (و فیصلہ) تک اور نہیں ہوجانا مچھلی والے کی طرح (جس کا وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) کہ جب اس نے پکارا (اپنے رب کو) اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا
42 پیغمبر کو صبر و ثبات کی تعلیم و تلقین کا ذکر وبیان : سو پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ پس آپ ﷺ صبر ہی سے کام لیں اپنے رب کے حکم و فیصلہ تک کہ نہ ان کی نصح و خیر خواہی اور وعظ و تبلیغ سے ہاتھ کھینچیں ‘ اور نہ ان کیلئے کوئی بددعا کریں ‘ جیسا کہ روایات میں وارد ہے کہ آپ نے باوجود اپنی عظیم الشان رحمۃ اللعالمینی کے بعض قبائل پر ان کی مسلسل شرانگیزی کی وجہ سے بددعا کرنے کا ارادہ فرما لیا تھا ‘ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور آپ ﷺ کو اس سے منع فرما دیا گیا (جامع البیان ‘ المراغی وغیرہ) بہرکیف اس میں آپ ﷺ کو یہ تعلیم ارشاد فرمائی گئی کہ آپ ﷺ کفار و مشرکین کی ایذا رسانیوں اور ان کی تکذیب و انکار ‘ اور اعراض و استکبار پر صبر و برداشت ہی سے کام لیتے رہیں اور اپنے رب کے حکم و ارشاد کا انتظار کریں۔ سو راہ حق و صواب پر صبر و ثبات اور تحمل و برداشت وسیلہ ظفر و فلاح ہے۔ اللھم ثبتنا علی الصراط المستقیم و وفقنا لما تحب و ترضیٰ من القول والعمل یہاں پر چونکہ صبر کے بعد ل کا صلہ آگیا ہے ‘ اس لئے اس میں انتظار کا مفہوم پیدا ہوگیا ‘ سو اس ارشاد میں صبر و ثبات کی تلقین کے ساتھ ساتھ پیغمبر کیلئے تسلی بھی ہے کہ آپ ﷺ ثابت قدیم رہیں اور اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کریں۔ سو راہ حق پر صبر و ثبات ذریعہ نجات اور وسیلہ ظفر ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویریدو ہوالہادی الی سواء السبیل۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے آمین۔ 43 بےصبری اور جلدی بازی سے ممانعت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور مچھلی والے کی طرح نہیں ہوجانا جب اس نے (اپنے رب کو) پکارا اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ یعنی حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) کی طرح ‘ جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تھے ‘ جس کے نتیجے میں آنجناب کو مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا تھا جو کہ آپ (علیہ السلام) کیلئے ایک طرح کا قید خانہ تھا ‘ یہاں پر آنجناب (علیہ السلام) کیلئے صاحب الحوت فرمایا گیا ہے اور دوسری جگہ ذوالنون اس کی معنی ببھی یہی ہیں یعنی مچھلی والا ‘ سو اس لقب سے ان کو ملقب کرنے اور اس سے یاد کرنے میں ایک قسم کا پیار بھی ہے ‘ اور اس آزمائش کی طرف اشارہ بھی جس میں آنجناب (علیہ السلام) کو مبتلا ہونا پڑا تھا ‘ کہ آپ (علیہ السلام) اپنی قوم کی تکذیب و توہین اور بےقدری و ناشکری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے گئے ‘ اس پر ان کو عتاب ہوا ‘ جس کے نتیجے میں ان کو مچھلی والا امتحان پیش آیا ‘ جس کو دوسرے مختلف مقامات پر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ‘ سو اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت خاتم الانبیاء کو صبر و ثبات کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ کہیں آپ (علیہ السلام) مچھلی والے کی طرح نہیں ہوجانا ‘ جنہوں نے بےصبری اور جلد بازی سے کام لیا جس سے ان کو اولوالعزم رسولوں کی فہرست سے نکال دیا گیا (تفسیر مظہری) اس لئے حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو اولوالعزم رسولوں کی طرح صبر سے کام لینے اور جلد بازی سے باز رہنے کی تعلیم و تقلین فرمائی گئی۔ چناچہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد ہوتا ہے اور صاف وصریح طور پر ارشاد ہوتا ہے فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ولا تستعجل لہم الایۃ (الاحقاف :35) یعنی آپ اسی طرح صبر سے کام لو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر سے کام لیا اور ان (منکرین) کے بارے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا۔ سو اس سے راہ حق پر استقامت کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ بہرکیف اس سے حضرت یونس (علیہ السلام) کے رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جب اس نے پکارا اپنے رب کو اس حال میں کہ وہ غم سے گھٹا ہوا تھا۔ اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے (المراغی) نیز دوسرا معنی مکظوم کا محبوس بھی ہوسکتا ہے کہ کظم بمعنی حبس بھی آتا ہے ‘ یعنی جب کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں محبوس تھا ‘ (الطبری) سو اس میں اجمالاً اس رویے کی طرف اشارہ ہے جو حضرت یونس (علیہ السلام) نے امتحان کے بعد اختیار فرمایا تھا ‘ کہ آپ (علیہ السلام) فوراً اپنی غلطی پر متنبہ ہوگئے اور نہایت شدید قسم کی گھٹن میں مچھلی کے پیٹ کے اندر سے اپنے رب کو پکارا اور اس کے حضور فریاد کی ‘ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ ولا تکن و کصاحب الحوت کے الفاظ سے کسی کو حضرت یونس (علیہ السلام) کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے ‘ بلکہ اس کی طرف اشارہ فرما دیا گیا تاکہ ان کی شان عبدیت و اوابیت کا یہ پہلو واضح ہوجائے کہ شدت تاثر کی بناء پر اگرچہ ان سے ایک غلطی سرزد ہوگئی ‘ لیکن انہوں نے فوراً ہی اس کی اصلاح فرما لی ‘ اور اللہ نے آپ (علیہ السلام) کو پھر برگزیدگی سے نواز دیا ‘ جیسا کہ آگے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اس واہب مطلق کی تو شان ہی نوازنا ہے ‘ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو حضرت یونس نے اپنی شان انابت و اوانھت کی بنا پر فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کیا صدق دل سے اسی کے آگے اپنی فریاد پیش کی ‘ اور وہ عظیم الشان اور زندئہ جاوید کلمات کہے جو قیام قیامت تک دنیا کی رہنمائی کرتے رہیں گے ‘ جس کو دوسرے مقام پر اس طرح ذکر فرمایا گیا ہے فنا دی فی الظلمت ان لا الٰہ انت سبحانک انی کنت من الظالمین (الانبیائ : 87) یعنی انہوں نے تہ در تہ اندھیروں میں پکار کر اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے تیرے اے میرے مالک تو پاک ہے یقینا میں ظالموں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ‘ آمین۔
Top