Tafseer-e-Madani - Al-Haaqqa : 4
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود نے وَعَادٌۢ : اور عاد نے بِالْقَارِعَةِ : کھڑکا دینے والی کو
جھٹلایا ثمود اور عاد نے دہلا دینے والے اس حادثہ کبریٰ کو
4 قیامت کی صداقت و حقانیت کے لئے تاریخ کا حوالہ و ذکر : سو قیامت کی صداقت و حقانیت کے ثبوت کے لئے تاریخ کے حوالے کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ جھٹلایا عاد اور ثمود نے دہلا کر رکھ دینے والے اس حادثہ کبری کو، والعیاذ باللہ العظیم سو وہ حادثہ کبری ایسا ہولناک ہوگا کہ اس سے لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وتری الناس سکاری وما ھم بسکاری ولکن عذاب اللہ شدید اور دل دہل جائیں گے اور وہ مارے خوف کے اس روز کانپ رہے ہوں گے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا قلوب یومئذ واجفۃ کہ وہ بڑا ہی عظیم اور انتہائی ہولناک حادثہ ہوگا جس میں زمین کے اس عظیم الشان کرے کو اور اس میں موجود ان دیوہیکل پہاڑوں کو ایک ہی ضرب میں کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وحملت الارض و الجبال قدکتادکۃ واجدۃ (الحاقتہ :14) اس کی عظمت اور ہولناکی کا اندازہ لگانا ہی کس کے بس میں ہوسکتا ہے ؟ اسی لئے اس کو دوسرے مقام پر سب دنیا اور تمام مخلوقات کو تہس نہس اور ملیا میٹ کر کے رکھ دینے والا سب سے بڑا حادثہ فرمایا گیا ہے یعنی الطامۃ الکبری اور بتایا گیا کہ آج غفلت میں پڑے ہوئے انسان کے ہوش اس دن ٹھکانے لگ جائیں گے اور اس وقت اس کو زندگی بھر کا کیا کرایا پوری طرح یاد آجائے گا اور وہ سب کچھ ماننے کے لئے تیار ہوجائے گا لیکن تب اس کا موقع و مقام کہاں اور کیسے ؟ وانی لہ الذکری کہ ماننے کا وقت گزر چکا ہوگا اور اس کا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوگا وانی لھم التناؤش من مکان بعید (سبا :53) ایسے حادثہ عظمیٰ اور طاسہ کبریٰ کی کا اندازہ لگانا کس کے بس میں ہوسکتا ہے ؟ سورة زلزال میں اس کی ہولناکی کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے اذا زلزلت الارض زلزالھا یعنی جب زمین ایسے ہولناک زلزلے سے دو چار ہوگی، جو اس عظیم الشان کرہ کے زلزلے کے لائق ہوگا اس لئے القارعتہ کا ترجمہ عام طور پر حضرات مترجمین جو کھڑکھڑانے والی جیسے الفاظ سے کرتے ہیں وہ دل کو لگتا نہیں کیونکہ ان الفاظ سے وہ تصور سامنے نہیں آتا جو وقع قیامت کی شدت اور ہولناکی کی پوری طرح عکاسی کرتا ہو، بہرکیف وہ بہت ہی بڑا حادثہ ہوگا، اس لیے القارعۃ کا صحیح مفہوم وہ ہے جو بعض محققین نے اس طرح بیان کیا ہے التی تفرع قلوب الناس بالمخاوف والا ہوال و تقرع الاجرام بالا نفطار والا نتشار (تفسیر المراغی وغیرہ) بہر کیف اس موقع پر تاریخ کے اس حوالے سے واضح فرما دیا گیا کہ جن قوموں نے آخرت کا انکار کر کے اسی دنیاوی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور وہ اسی کی ہو کر رہ گئیں اور آخرت کی باز پرس اور وہاں کی جوابدہی سے وہ غافل و لاپروا ہوگئیں وہ اخلاق و کردار کے ایسے ہولناک بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہیں کہ آخر کار اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے عذابوں کے ذریعے ان کا ایسا صفایا کردیا کہ وہ قصہ پارینہ اور افسانہ ماضی بن گئیں۔ اب ان کا کہیں کوئی وجود نہیں " فھل تری لھم من باقیہ ؟ " والعیاذ باللہ العظیم سو اس میں بڑا سامان عبرت و بصیرت ہے۔
Top