Tafseer-e-Madani - Al-Haaqqa : 40
اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۚۙ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَقَوْلُ : البتہ ایک بات ہے رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ : معزز فرشتے کی
بلاشبہ یہ (قرآن) قطعی طور پر ایک بڑے ہی معزز پیغمبر کا پیش کیا ہوا کلام ہے
34 قرآن حکیم کی عظمت شان کے ایک خاص پہلو کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور تاکید در تاکید کے ساتھ فرمایا گیا کہ لاشبہ یہ قرآن ایک معزز پیغمبر کا پیش کردہ کلام ہے۔ اتنے بڑے کرم والے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں اتنی کرم والی دوسری کوئی ہستی نہ ہوئی ہے ‘ نہ ہوگی ‘ اس سے مراد ہیں نبی اکرم رحمت مجسم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جن کی بعثت و تشریف آوری نے پوری انسانیت کو قعر مذلت سے نکال کر اوج ثریا سے ہمکنار ہونے بلکہ اس سے بھی آگے پرواز کر جانے کی راہ بتائی اور اس کو دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور ہونے کی تعلیم سے نوازا ‘ صلوات اللہ وسلامہ علیہ آگے یہ انسان کی اپنی شقاوت اور بدبختی ہے کہ وہ اس راہ حق سے اعراض کرکے اور منہ موڑ کر اسفل السافلین کے گڑھے میں جاگرے ‘ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو رسول کریم کے لفظ سے یہاں پر مراد حضرت محمد ﷺ ہیں۔ کیونکہ یہاں پر رسول کریم فرمانے کے بعد فرمایا گیا کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں اور یہ بات ظہار ہے کہ کفار مکہ شاعر اور کاہن جبریل امین کو نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ ہی کو کہتے تھے جبکہ سورة تکویر کی آیت نمبر 19 میں وارد لفظ رسول سے مراد جبریل امین ہیں کیونکہ وہاں پر اس کے بعد جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ حضرت جبریل کی ہیں نہ کہ حضرت محمد کی۔ جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک دونوں جگہوں پر اس کی مراد جبریل امین ہی ہیں۔ بہرکیف اس سے قرآن حکیم کی عظمت شان کے اس خاص پہلو کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ والحمدللہ جل و علا۔ سو قرآن حکیم ایک بڑے ہی معزز رسول کا کلام ہے۔ یعنی یہ رسول کریم کا پیشہ کردہ کلام ہے۔ سو یہ نسبت مجازی ہے یعنی قرآن حکیم کلام تو بیشک حضرت رب العالمین احکم الحاکمین جل جلالہ ہی کا ہے لیکن اللہ پاک کی طرف سے اس کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والی اور اہل دنیا کو پڑھ کر سنانے اور بتانے والی ذات اقدس آپ ہی کی ہے اسی لئے یہاں لقول محمد نہیں فرمایا گیا بلکہ لقول رسول فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ ہی اس کو دنیا کے سامنے پیش فرمانے والے ہیں ‘ اور آنحضرت ﷺ تک چونکہ اس کلام خداوندی کو حضرت جبریل امین نے پہنچایا اس لئے سورة تکویر میں اس کلام معجز نظام کو ان کی طرف منسوب فرمایا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے انہ لقول رسول کریم ٭ ذی قوۃ عند ذی العرش مکین ٭ مطاع ثم امین (التکویر۔ 19 ۔ 21) کیونکہ اس کو الہ پاک سے آنحضرت ﷺ تک آپ (علیہ السلام) ہی نے پہنچایا ‘ سو ان دونوں کی طرف یہ اسناد مجازی ہے۔
Top