Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 104
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰي : موسیٰ يٰفِرْعَوْنُ : اے فرعون اِنِّىْ : بیشک میں رَسُوْلٌ : رسول مِّنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور موسیٰ نے کہا اے فرعون بیشک میں پیغمبر ہوں، اس ذات کی طرف سے جو پروردگار ہے سب جہانوں کی،
142 رسالت و پیغمبری کا شرف و اعزاز سب سے بڑا شرف واعزاز : سو حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے اپنے تعارف کے طور پر یہی فرمایا کہ میں رسول ہوں پروردگار عالم کا۔ سو پیغمبر کی عظمت شان کا سب سے بڑا تعارف یہی ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ پس موسیٰ نے کہا کہ میں اسی خالق ومالک وحدہ لاشریک کا پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں۔ نہ اپنی طرف سے کچھ کہتا ہوں اور نہ ہی تم سے کسی طرح کا کوئی دنیوی مفاد چاہتا ہوں۔ سو پیغمبر کی عظمت شان کا سب سے بڑا پہلو اور اصل تعارف یہ ہے کہ وہ اللہ کا رسول اور اس کا فرستادہ ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی ہوتی ہے اور اس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اسی لیے حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے اپنا یہی تعارف کرایا کہ میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔ " حقیق " کے اصل معنیٰ " لائق " کے ہیں۔ لیکن جب اس کا صلہ " علیٰ " آجائے، جیسا کہ یہاں ہے، تو اس وقت یہ لفظ حریص کے معنی کو بھی متضمن ہوجاتا ہے۔ سو اس اعتبار سے اس لفظ کے یہاں پر معنیٰ ہوں گے کہ میں اس بات کا اہل اور اس کا حریص ہوں کہ اللہ کے ذمے کوئی بات نہ لگاؤں مگر وہی جو کہ حق ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جو خدا کا رسول اور سفیر ہوگا وہی سب سے زیادہ اس کا اہل اور اس کا حریص ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے پیغامات کی صحیح صحیح ترجمانی کرے اور کوئی من گھڑت بات اس کی طرف منسوب نہ کرے۔ کیونکہ اس کا علم ظن وتخمین پر نہیں بلکہ براہ راست وحی خداوندی اور اس کے خطاب پر مبنی ہوتا ہے۔ رسولوں کا کام تو پیغام خداوندی کو جوں کا توں پہنچانا ہوتا ہے اور بس ۔ علی نبینا وعلیہم الصلاۃ والسلام -
Top