Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور بلاشبہ ہم نے ہی پیدا کیا تم سب کو، پھر ہم ہی نے صورت گری کی تم سب کی، پھر ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ تم سجدہ ریز ہوجاؤ آدم کے آگے، تو وہ سب سجدے میں گرپڑے بجز ابلیس کے، کہ وہ نہ ہوا سجدہ کرنے والوں میں سے
15 آدم کے لئے سجدے کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ تم سجدہ ریز ہوجاؤ آدم کے لیے۔ سو آدم کو سجدہ کرنے کا یہ حکم ایک بڑا اعزاز ہے جس سے حضرت ابو البشر کو نوازا گیا تاکہ اس طرح آدم اور اولاد آدم کی عظمت شان کا اظہار ہو سکے۔ سو اس طرح حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے تمہیں بیشمار اور عظیم الشان حسی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، جس کا لازمی اور بدیہی تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ تم اس واہب مطلق ۔ جل وعلا ۔ کے آگے دل و جان سے جھک جاؤ اور خلافت ارضی کے جس تاج سے اس نے تم کو نوازا ہے اس پر تم اس کا حق ادا کرو۔ اور اس طرح دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور ہو سکو۔ سو فرشتوں کو آدم کے آگے سجدہ کرنے کے اس حکم و ارشاد میں آدم اور اولاد آدم کے لئے ایک بڑا اعزاز اور اس کی تعظیم و تکریم تھی جس سے حضرت حق ۔ جل مجدہٗ ۔ نے ان کو نوازا۔ سو اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اپنے اس شرف واعزاز کا خیال رکھیں اور اس کے تقاضے میں اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے لیے اس کے حضور جھک جائیں اور ہمیشہ جھکے ہی رہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top