Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور بلاشبہ ہم نے پکڑا فرعوں والوں کو (کئی سالوں کے) قحط، اور پیداوار کی کمی کے ساتھ، تاکہ وہ لوگ (ہوش میں آئیں اور) سبق لیں،3
162 مصائب و آلام ذریعہ تنبیہ و تذکیر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ مصائب و آلام ذریعہ تنبیہ و تذکیر کا ایک اہم پہلو رجوع الی اللہ کیلئے تنبیہ و تذکیر ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان کو ان طرح طرح کے مصائب میں پکڑا تاکہ وہ لوگ سبق لیں اور اپنی اصلاح کرلیں۔ سو یہ مصائب وآلام کا ایک اہم مقصد ہے کہ ان کے ذریعے بگڑے ہوئے انسان کی اکڑی ہوئی گردن نرم پڑے اور وہ حق کے آگے جھک کر دارین کی سعادت و سرخروئی اور فوز و فلاح سے بہرہ ور ہوجائے۔ لیکن چونکہ انسان ضعیف اور کمزور مخلوق ہے، مصائب و آلام کا سہنا اور برداشت کرنا اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو مصائب و آلام کی دعاء و طلب کبھی نہیں کرنی چاہیئے بلکہ اس ربِّ کریم سے ہمیشہ امن و عافیت کی دعاء و درخواست کرنی چاہیئے۔ لیکن اس کے باوجود جب مصائب آجائیں تو پھر صبر و برداشت ہی سے کام لینا چاہیئے۔ اور یہی طریقہ ہے صحت و سلامتی کا۔ اور اس سے وہ مصائب بھی اس کے لئے خیر و برکت اور دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ بن جائیں گے ۔ فَنَسْاَلُ اللّہُمَّ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ وَالْمُعَافَاۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ وَیَا اَکْرَمَ الاَکْرَمِیْنَ ۔ بہرکیف مصائب و آلام کا یہ ایک اہم پہلو ہے۔ سو اس سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے فرعون والوں کو قحط سالی اور پیداوار کی کمی وغیرہ مصائب میں پکڑا تاکہ وہ سبق لیں اور باز آجائیں اپنی سرکشی سے تاکہ خود ان بھلا ہو۔
Top