Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ ہی کے لیے سب سے اچھے نام، پس تم لوگ اس کو پکارو اس کے انہی ناموں کے ذریعے، اور چھوڑ دو تم ان لوگوں کو جو کج روی برتتے ہیں اس کے ناموں میں، وہ عنقریب ہی (بھرپور) بدلہ پا کر رہیں گے اپنے ان کاموں کا جو وہ کرتے رہے تھے،
255 اللہ ہی کیلئے ہیں سب سے اچھے نام : کہ ہر اچھائی کا خالق ومالک بھی وہی ہے اور ہر تعریف و توصیف کا اصل حق دار بھی وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اس لئے ایسے بہترین ناموں " اسمائے حسنیٰ " کا حقدار و مستحق بھی وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور کسی کمال کا ایسا درجہ جس سے اوپر کوئی درجہ نہ ہوسکے وہ صرف اور صرف حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ ہی کیلئے ہوسکتا ہے کہ وہ ہی ہے جو ہر خوبی و کمال کا خالق ومالک ہے ۔ جل و علا شانہ ۔ اس آیت کریمہ کا تعلق در اصل توحید کے اس عہد فضیلت سے ہے جس کا ذکر اوپر آیت نمبر 172 میں آیا ہے۔ بیچ میں ان لوگوں کا ذکر آگیا جنہوں نے اللہ کی آیات کی قدر نہیں کی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نہایت اعلیٰ صلاحیتیں پانے کے باوجود وہ اندھے اور بہرے بن گئے۔ سو اس کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ ہی کے لئے ہیں سب عمدہ نام اور اچھی صفات۔ پس تم لوگ اس کو اس کے انہی ناموں اور صفات سے پکارو۔ 256 اسمائِ حُسنیٰ میں کجی سے کام لینے کی صورتیں ۔ والعیاذ باللہ : سو اسمائے حسنی میں سے کجی سے کام لینے کی صورتیں کئی ہوسکتی ہیں۔ مثلا یہ کہ اس کو ان اسماء ِحسنی کے خلاف دوسرے خود ساختہ ناموں سے پکارتے ہیں یا ان کی غلط تاویلات کرتے اور انہیں من مانے معانی پہناتے ہیں وغیرہ۔ یا اللہ تعالیٰ کے اسمائِ حسنی کو اس کے سوا کسی اور کیلئے استعمال کرنا۔ اور اسی میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ " عبدالخالق " کو " خالق "، " عبدالجبار " کو " جبار " اور " عبدالرحمن " کو " رحمن " کہا جائے وغیرہ جیسا کہ دور حاضر میں بالعموم پایا جاتا ہے۔ سو یہ سب اسی میں داخل ہے۔ (معارف وغیرہ) ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اس وحدہٗ لاشریک کو اس کے انہی عمدہ اور پاکیزہ ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو جو صفات الٰہیہ کے بارے میں گمراہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ اس کے شریک ٹھہراتے اور ان خود ساختہ شریکوں کو وہ حاجت روا و مشکل کشا مانتے ہیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ اور یہ سب باتیں اس کی صفات الوہیت، اس کی ربوبیت اور اس کی یکتائی و بےنیازی، اس کے علم لامحدود اور اس کی قدرت غیر متناہی کے خلاف اور ان کے معارض ہیں۔ خداوند قدوس کو انہی صفات سے متصف جاننا اور انہی کے ساتھ پکارنا چاہئے جو اس کی شان اقدس و اعلیٰ کے لائق ہوں اور وہ وہی ہوسکتی ہیں جو وہ خود بتائے یا اس کا رسول بتائے۔ انسان دین کی روشنی کے بغیر محض اپنی عقل سے اس کی معرفت سے سرفراز نہیں ہوسکتا ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top