Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 192
وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ
وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ قدرت نہیں رکھتے لَهُمْ : ان کی نَصْرًا : مدد وَّلَآ : اور نہ اَنْفُسَهُمْ : خود اپنی يَنْصُرُوْنَ : مدد کرتے ہیں
اور وہ نہ ان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرسکتے ہیں اور نہ وہ خود اپنی ہی کوئی مدد کرسکتے ہیں،
269 جو خود محتاج ہیں وہ دوسروں کی مدد کیا کریں گے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ ان کو خدا کا شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود مخلوق ہیں اور وہ نہ ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی کوئی مدد کرسکتے ہیں۔ سو جو خود اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی کوئی مدد کس طرح کرسکیں گے ؟ اور جو خود موت کے منہ میں چلے گئے اور چلے جائیں گے وہ دوسروں کو کسی آفت سے کیسے بچاسکتے ہیں ؟ افسوس کہ اتنی جلی اور واضح حقیقت بھی کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی اور وہ ایمان و توحید کے بلند بانگ دعو وں کے باوجود طرح طرح کی شرکیات میں ملوث و مبتلاء ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ نے کس قدر سچ فرمایا { وَمَا یُؤمِنُ اَکْثَرُھُمْ باللّٰہِ الاّ وَھُمْ مُشْرِکُون } (یوسف : 106) ۔ یعنی " لوگوں کی اکثریت ایمان کے دعو وں کے باوجود شرک میں مبتلا رہتی ہے " ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جب خدا ہی سب کا خالق ومالک، حاجت روا و مشکل کشا ہے اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہر کسی کا نفع و نقصان ہے تو پھر ایسی چیزوں کو اس کا شریک ماننے اور ان کو اس کی خدائی میں شریک جاننے کی آخر تک ہی کیا ہوسکتی ہے ؟۔ جو نہ کسی کو پیدا کرسکیں بلکہ وہ خود مخلوق ہوں۔ اور جو نہ کسی کی مدد کرسکیں اور نہ وہ خود اپنی ہی مدد پر قادر ہوں۔ سو یہ ارشاد دراصل اوپر والے ارشاد { فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ } کے مضمون کی توضیح و تشریح ہے۔ کیونکہ شرک خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو وہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمال کی نفی کردیتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جو خود مخلوق اور محتاج ہوں وہ دوسروں کے حاجت روا و مشکل کشا نہیں ہوسکتے۔
Top