Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 60
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا : بیشک ہم لَنَرٰكَ : البتہ تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اس پر آپ کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ ہم تو یقیناً دیکھتے ہیں تم کو پڑا ہوا کھلی گمراہی میں،
83 قوم نوح کا حضرت نوح کو گستاخانہ اور کافرانہ جواب : کہ ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔ اس لئے کہ تم اپنے بڑوں اور بزرگوں کے طریقے سے ہٹ کر اور ان کے طور طریقوں کو چھوڑ کر، اور ان کے دین و مذہب کے خلاف ایک ہی خدا کی بندگی کی دعوت دیتے ہو اور ہمیں اپنے ماضی سے کاٹ کر اور اپنے آباؤ اجداد کے طریقوں سے ہٹا کر تم ہماری تہذیب و ثقافت کو تباہ کرنا چاہتے ہو۔ پس یقینی طور پر تم کھلی گمراہی میں پڑے ہو ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو وہ تھا پیغمبر کی دعوت حق کا نمونہ صادقہ، جس کا ذکر ابھی اوپر ہوا اور اس کے مقابلے میں یہ ہے ان کی اس ناہنجار قوم کے دکھ دہ اور دلآزار جواب کا نمونہ۔ اور اس پر بھی حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ کا صبر اور ان کی یہ استقامت کہ نہ کوئی جوابی حملہ اور نہ کسی طرح کا کوئی جذباتی ردعمل۔ بلکہ کامل صبر و استقامت ہی سے کام لیتے رہے۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ کا ظرف کس قدر وسیع ہوتا ہے اور ان کا صدق و اخلاص اور صبر و استقامت کس قدر عظیم الشان اور جلیل القدر ہوتا ہے۔ بہرکیف حضرت نوح کی قوم کے کافر سرداروں نے آپ کی دعوت کے جواب میں کہا کہ ہم تم کو کھلی گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں کہ ایک تو تم ہمارے باپ دادا کے دین کی توہین و تحقیر کرتے ہو۔ دوسرے تم ان کے معبودوں کا انکار کرتے ہو۔ اور تیسرے تم ہم پر عذاب الٰہی کے نزول کی دھمکی دے رہے ہو۔ حالانکہ ہمارے حالات تم سے اور تمہارے نام لیواؤں کے حالات سے ہر لحاظ سے اچھے ہیں۔
Top