Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 68
اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ
اُبَلِّغُكُمْ : میں تمہیں پہنچاتا ہوں رِسٰلٰتِ : پیغام (جمع) رَبِّيْ : اپنا رب وَاَنَا : اور میں لَكُمْ : تمہارا نَاصِحٌ : خیر خواہ اَمِيْنٌ : امین
میں تمہیں پیغامات پہنچاتا ہوں اپنے رب کے، اور میں تمہارا قابل اعتماد خیر خواہ ہوں1
91 پیغمبر کی دعوت خالص خیرخواہی پر مبنی ہوتی ہے : نہ تو تمہارے ساتھ اس خیر خواہی میں کسی ذاتی غرض کا کوئی شائبہ ہے اور نہ ہی اس پیغام ربانی میں کسی آمیزش کا کوئی سوال۔ جس کے ساتھ مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے۔ پس اس کو قبول کرنے اور صدق دل سے اپنانے میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا اور فائدہ ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور اس کے بعد آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی۔ سو پیغمبر کی دعوت خالص خیرخواہی اور صدق و اخلاص پر مبنی ہوتی ہے۔ اس میں ذاتی اغراض یا نفسانی خواہشات کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کے اس جواب میں بھی وہی پیغمبرانہ ادب عالی پایا جاتا ہے جو حضرت نوح کے جواب میں اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ آپ نے بھی اپنی قوم کی بدتمیزی اور سوء ادبی کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا۔ بلکہ اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے اصل حقیقت کو ان کے سامنے رکھ دیا۔ سو یہ پیغمبر ہی کی شان اور انہی کا ظرف ہوسکتا ہے کہ وہ ایسی باتوں کے جواب میں ایسے اغماض اور چشم پوشی سے کام لیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی اس کا کوئی حصہ نصیب فرما دے ۔ آمین۔ اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے اس جواب سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ امانت رسول کی ایک نمایاں صفت ہوتی ہے۔ سو پیغمبر ایسا امین ہوتا ہے کہ خداوند قدوس کی طرف سے جو پیغام ان کے حوالے کیا جاتا ہے اس میں وہ سرمو کوئی کمی بیشی نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اس کو پوری دیانتداری کے ساتھ جوں کا توں آگے پہنچاتا ہے ۔ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ-
Top