Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 87
وَ اِنْ كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآئِفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا١ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے طَآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم سے اٰمَنُوْا : جو ایمان لایا بِالَّذِيْٓ : اس چیز پر جو اُرْسِلْتُ : میں بھیجا گیا بِهٖ : جس کے ساتھ وَطَآئِفَةٌ : اور ایک گروہ لَّمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لایا فَاصْبِرُوْا : تم صبر کرلو حَتّٰي : یہاں تک کہ يَحْكُمَ : فیصلہ کردے اللّٰهُ : اللہ بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہترین الْحٰكِمِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
اور اگر تم میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اس (پیغام) پر جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے، اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا، تو تم لوگ صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرما دے ہمارے درمیان، کہ وہی ہے سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا۔
123 صبر و ثبات کی تعلیم و تلقین : سو اس ارشاد سے ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے مقابلے میں صبر و برداشت سے کام لینے کی ہدایت و تلقین فرمائی گئی کہ جن کے اندر خیر و صلاح کی کوئی رمق موجود ہو وہ ایمان لے آئیں۔ اور جو اس سے محروم ہوں وہ اپنے آخری انجام کو پہنچ جائیں۔ پس ایمان امن و سلامتی کا باعث وضامن ہے اور کفر ہلاکت و تباہی کا سبب ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے مقابلے میں صبر و برداشت سے کام لینے ہی میں سلامتی و عافیت ہے۔ بہرکیف حضرت شعیب نے ان سے فرمایا کہ اگر ایک گروہ نے میری دعوت کو قبول نہیں کیا اور وہ لوگ مجھ پر ایمان نہیں لائے تو تم صبر و برداشت اور ثبات و استقامت ہی سے کام لو اور یقین رکھو کہ ایسے لوگ جنہوں نے حق سے اعراض کیا اور منہ موڑا وہ اپنے انجام کو بہرحال پہنچ کر رہیں گے۔ اس سے کبھی بچ نہیں سکیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دیر تو ہے، اندھیر نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 124 اللہ ہی سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے : اور بلا شبہ سب سے بہتر اور صحیح فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہوسکتا ہے کہ اس کا علم بھی کامل ہے اور رحمت و عدل بھی کامل۔ اور وہ ہر غرض کے شائبے سے بھی پاک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس لیے آپ ایسے ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے مقابلے میں صبر و برداشت ہی سے کام لیں اور ان کا معاملہ اسی احکم الحاکمین پر چھوڑ دیں۔ وہ ان کے درمیان کسی لاگ لپٹ کے بغیر ایسا صحیح اور درست فیصلہ فرمائے گا کہ ہر کسی کو اس کے کیے کرائے کا پورا بدلہ ملے جائے گا کہ اس کا دستور عدل و انصاف یہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو ڈھیل دے رہا ہے تو وہ اس لئے دے رہا ہے کہ ان میں سے جن کے اندر قبول حق کی کوئی صلاحیت ہو وہ ایمان لے آئیں اور چھٹ کر دوسروں سے الگ ہوجائیں۔ سو تم لوگ اس بارے انتظار کرو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ حق اور باطل والوں کے درمیان آخری اور عملی فیصلہ فرما دے گا اور وہی ہے سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا۔
Top