Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 96
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ ہوتا کہ اَهْلَ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَفَتَحْنَا : تو البتہ ہم کھول دیتے عَلَيْهِمْ : ان پر بَرَكٰتٍ : برکتیں مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلٰكِنْ : اور لیکن كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا فَاَخَذْنٰهُمْ : تو ہم نے انہیں پکڑا بِمَا : اس کے نتیجہ میں كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے
اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے، اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ضرور ان پر دروازے کھو دیتے طرح طرح کی برکتوں کے آسمان و زمین سے، مگر وہ تو تکذیب ہی پر کمر بستہ رہے، آخرکار ہم نے آپکڑا، ان کو ان کے اعمال کی بناء پر جنہیں وہ خود کماتے رہے تھے،
134 متاع ایمان وتقویٰ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ و پرہیزگاری کو اپناتے اور اختیار کرتے تو ہم یقینا ان پر آسمانوں اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے مگر انہوں نے اس کے برعکس کفر و انکار اور تکذیب حق و اہل حق کی روش ہی کو اپنائے رکھا یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کے یہ دو وصف آخرت کی دائمی سعادت اور حقیقی کامیابی سے پہلے اس دنیا میں بھی انسان کیلئے موجب خیر و برکت بنتے ہیں ۔ فَاِیَّاکَ نَسْاَلُ التَّوْفِیْقَ وَالسِّدَادَ یَا مَنْ لَّا حَدَّ لِجُوْدِہٖ وَ لَا نِہَایَۃَ لِکَرَمِہٖ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور ان دونوں میں سے پہلا وصف یعنی ایمان تو اس نور سے عبارت ہے جو انسان کے دل میں جاگزین ہوتا ہے اور اسکے باطن کو منور و معمور کرکے اس کو کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔ اور اس کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری سے مراد ہے ہر اس چیز سے بچنا اور پرہیز کرنا جو حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی ناراضگی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کا باعث ہو۔ جس میں سب سے پہلے کفر و شرک اور باطل کی ہر شکل سے بچنا ہے اور پھر اسکی ہر قسم کی معصیت و نافرمانی سے بچنا ہے۔ سو ایمان وتقویٰ کے ان دونوں وصفوں اور دونوں لائنوں میں انسان جس قدر ترقی کرتا اور جتنا آگے بڑھتا جائے گا اتنا ہی وہ خداوند قدوس کی رضاء و رحمت سے سرفراز و فیضیاب ہوتا اور ترقی کرتا جائے گا ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ضرور ان پر خیرات و برکات کے دروازے کھول دیتے۔ ان کے سروں پر تنی ہوئی آسمان کی اس عظیم الشان چھت سے بھی اور ان کے پاؤں کے نیچے بچھی خیرات و خزائن سے بھری اپنی اس زمین سے بھی لیکن انہوں نے اس کے برعکس محرومی ہی کا راستہ اپنایا ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدَ وعلی ما یحب ویرید وَھُوَا الْہَادِیْ اِلٰی سَوَائِ السَّبِیْلِ ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 135 اَعمال کا بدلہ آخرت سے پہلے اس دنیا میں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اس کے برعکس اپنی تکذیب ہی بر کمربستہ رہے۔ تو آخرکار ہم نے ان کو آپکڑا ان کے ان اعمال بد کی پاداش میں جو وہ کماتے رہے تھے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کا پورا بدلہ تو اگرچہ آخرت ہی میں ملے گا مگر ان کا کچھ نہ کچھ بدلہ وثمرہ انسان کو اس سے پہلے اس دنیا میں بھی ملتا ہے۔ خیر کا خیر اور شرکا شر ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ایمان صحیح اور عمل صالح اور تقویٰ و پرہیزگاری سے انسان کو اس دنیا میں حیات طیبہ (پاکیزہ زندگی) کی عظیم الشان سعادت اور جلیل القدر نعمت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے۔ جیسا کہ یہاں پر بھی اس بارے تصریح فرمائی گئی کہ اگر یہ لوگ ایمان وتقویٰ کی روش اپناتے تو ان پر آسمان اور زمین کی خیرات و برکات کے دہانے کھول دیئے جاتے۔ اس کے برعکس کفر و بغاوت پر ایسے لوگوں کو ہولناک عذابوں میں دھر لیا گیا، جیسا کہ یہاں پر اس کی تصریح فرمائی گئی کہ ایسوں کو ہم نے بالآخر ان کی زندگی بھر کی کمائی پر پکڑا، لیکن اعمال کا پورا بدلہ ان کو آخرت کے اس جہاں ہی میں مل سکے گا جو کہ " دارالجزاء " ہے جبکہ دنیا " دارالعمل " اور ابتلاء و آزمائش کی جگہ ہے۔ اس میں کامل اور فیصلہ کن جزا و سزا نہ ملتی ہے نہ مل سکتی ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top