Tafseer-e-Madani - Nooh : 21
قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِیْ وَ اتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهٗ وَ وَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًاۚ
قَالَ نُوْحٌ : کہا نوح نے رَّبِّ : اے میرے رب اِنَّهُمْ عَصَوْنِيْ : بیشک انہوں نے میری نافرمانی کی وَاتَّبَعُوْا : اور پیروی کی مَنْ لَّمْ : اس کی جو نہیں يَزِدْهُ : اضافہ کیا اس کو مَالُهٗ : اس کے مال نے وَوَلَدُهٗٓ : اور اس کی اولاد نے اِلَّا خَسَارًا : مگر خسارے میں
نوح نے عرض کیا اے میرے رب ان لوگوں نے رد کردیا ہے میری بات کو اور یہ پیچھے چل پڑے ان لوگوں کے جن کو ان کے مال و اولاد (وغیرہ نعمتوں) نے خسارے (اور نقصان) میں اضافے کے سوا کچھ نہیں دیا
20 ۔ حضرت نوح کی شکایت اپنے رب کے حضور : سو اس سے حضرت نوح کی اپنے رب کے حضور اپنی قوم کے بارے میں درد بھری شکایت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی اس ناہنجار اور بدبخت قوم کے بارے میں اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ ان لوگوں نے میری نافرمانی کر کے اپنے بڑوں کی بات مانی۔ اور انہوں نے میری دعوت و پکار سے منہ موڑ کر ان کی پیروی کئی جن کے جانوں اور ان کی اولادوں نے ان کے لئے اضافہ نہیں کیا مگر خسارے اور نقصان کا یعنی میری یہ قوم اپنے ان رئیسوں، مال داروں، اور سرداروں کے پیچھے چل پڑی جو نور حق و ہدایت سے محروم ہیں اور ان کے مال و اولاد ان کے لئے سو حضرت نوح نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں نے اپنی اس قوم کی دعوت و تبلیغ اور اس کے فرمائش و انداز کے لئے سارے جتن کر ڈالے لیکن ان سنگ دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے میری بات کو مان کر نہیں دیا اور انہوں نے میری بات ماننے کی بجائے ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے ان کے خسارے اور نقصان کے سوا اور کسی بات میں اضافہ نہیں کیا۔ سو اس سے حضرت نوح کی دعوت کے اس آخری مرحلے کا ذکر فرمایا گیا ہے جو کہ اتمام حجت کا آخری مرحلہ تھا جس کے بعد وہ بدبخت قوم اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہی سو اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ منکرین کے لئے ان کے مال و حوالے و خسارے ہی کا باعث بنتے ہیں انہی چیزوں کی بناء پر ایسے لوگ استکبار یعنی اپنی بڑائی کے زعم اور گھمنڈ میں مبتلا ہو کر نور حق و ہدایت سے مزید دور اور محروم ہوتے چل جاتے ہیں اسی لئے حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ میری قوم کے ان لوگوں نے میری نافرمانی کر کے ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے ان کے لئے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا کہ انہی کی بناء پر یہ لوگ حق سے محروم اور نامراد ہوئے۔ والعیاذ باللہ۔ سو مال و اولاد نے شکر گزاری کی بجائے ان کے عجب و اسکتبار ہی میں اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں وہ کفر و باطل کی غلط اور تبا کن روش پر اڑ گئے اور ان چیزوں کو انہوں نے اپنے حق پر ہونے کی دلیل قرار دیا کہ اگر ہم غلط راہ پر ہوتے تو ہمیں یہ سب کچھ آخر کیوں ملتا۔ سو اس طرح منکرین کے اموال و اولاد ان کے لئے باعث خسارہ و ہلاکت بن جاتے ہیں اور ایسے لوگ عجب و استکبار اور کبروغرور میں مبتلا ہو کر حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں آخر کار وہ ہلاکت و تباہی کے دائمی اور ہولناک گڑھے میں گر کر رہتے ہیں جس سے بڑا خسارہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین
Top