Tafseer-e-Madani - Nooh : 26
وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا
وَقَالَ نُوْحٌ : اور کہا نوح نے رَّبِّ لَا تَذَرْ : اے میرے رب نہ تو چھوڑ عَلَي : پر الْاَرْضِ : زمین (پر) مِنَ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں میں سے دَيَّارًا : کوئی بسنے والا
اور نوح نے مزید عرض کیا کہ اے میرے رب اب اس زمین پر ان کافروں میں سے کوئی ایک باشندہ بھی باقی نہ چھوڑنا
26 ۔ کافروں کے ایک متنفس کو بھی باقی نہ چھوڑنے کی دعا : سو حضرت نوح نے اپنی دعا میں اپنے رب کے حضور کے بوجھ سے پاک اور ان کی شر انگیزوں سے محفوظ ہوجائے۔ " دیارا "۔ کا لفظ یا تو۔ " دار یدور " سے ماخوذ ہے یا " دار " کی طرف منسوب ہے اس کی اصل " دیوار " ہے اس میں وہی تعلیل جاری ہوتی ہے جو کہ سید کے لفظ میں ہوتی ہے، (جامع البیان وغیرہ) سو حضرت نوح نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اب ان میں سے کسی متنفس کو بھی زندہ نہ چھوڑنا کہ اب اس بدبخت قوم سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں ہوسکتی۔ ان پر حجت تمام ہوگئی ہے۔ اب ان میں سے نہ کسی کو زندہ رہنے کا حق ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی سے کسی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ رسول کی بعثت و تشریف آوری اور ان کی طویل بلکہ طویل ترین دعوت و تبلیغ کے ذریعے فضل وتمیز کے چھاج میں پوری طرح جھان کر اور چھانٹ پھٹک کر اور چھانٹ پھٹک کر دیکھ لیا گیا ہے اور صالح عناصر کو الگ کر کے فاسد عناصر کو جدا کردیا گیا ہے۔ اب ان فاسد عناصر کا باقی اور برقرار رہنا عباد وبلاد کیلئے کسی خبر کا فریقین بلکہ شر و سادی کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم
Top