بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک دور ایسا نہیں گزرا جب کہ اس کا کوئی نام (و نشان) بھی نہ تھا ؟
1 انسان کیلئے خود اپنے وجود میں غور و فکر کی دعوت : سو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے استفہامیہ اسلوب بیان میں اڑشاد فرمایا گیا کہ کیا انسان پر ایک ایسا دور نہیں گزرا جب یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا ؟ سو یہ استفہام تقریر اور تفریع کیلئے ہے یعنی یہ ایک ایسی قطعی اور یقینی حقیقت ہے جس سے انکار کی کسی کو گنجائش نہیں، اس طرح اس سوال و استفہام سے مخاطب کے ضمیر کو جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ جس قادر مطلق اور واہب مطلق نے تم کو عدم محض سے نکال کر خلعت وجود سے نوازا، اور اس طرح طرح کی نعمتوں سے تمہیں سرفراز فرمایا اس سے تم کس طرح سرکشی اور بغاوت کا معاملہ کرتے ہو ؟ عام طور پر حضرات مفسرین و مترجمین یہاں پر فرما دیتے ہیں کہ یہاں پر ھل بالاتفاق قد کے معنی میں ہے ‘ لیکن شوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو قد کی بجائے ھل سے تعبیر کیوں فرمایا گیا ؟ سو یہ اس لئے ہے کہ ھل کے استفہام سے اس معنی و مفہوم میں جو زور پیدا ہوتا ہے وہ قد کی تاکید سے نہیں پیدا ہوسکتا اس لئے ہم نے عام ترجموں کے برعکس یہاں پر اس کا ترجمہ استفہام ہی سے کیا ہے معنی تو بہرحال تاکید ہی کا ہے جو کہ قد کا مفاد ہے، لیکن زیادہ زور بلاغت اور قوت کلام کے ساتھ والحمدللہ۔ سو " ھل " کے اس استفہام سے انسان کے ضمیر پر دستک دی گئی تاکہ وہ غفلت و لاپرواہی سے چونک کر اپنے بارے میں غور و فکر سے کام لے اور راہ حق و ہدایت کی طرف رجوع کرے۔ 2 دھر کا معنی و مطلب ؟: سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک حصہ ایسا نہیں گزرا۔ کیونکر دھر کا اطلق دراصل ہوتا ہی اس زمانے پر ہے جس کی نہ ابتدا معلوم ہو نہ انتھاء الزمان الممتد اللامحدود (صفوۃ البیان ‘ المراغی وغیرہ) سو اس طویل اور لامتناہی زمانے میں ایک مدت تو ایسی گزری جبکہ بنی نؤع انسان ہی کا کوئی وجود نہیں تھا ‘ پھر ایک زمانہ آیا کہ انسان نام کی ایک نوع کے وجود کا آغاز کردیا گیا، پھر اسی زمانے کے اندر ایک وقت ایسا آیا جبکہ ہر ہر شخص کے وجود میں لانے کی ابتداء کی گئی۔ سو اس میں انسان کے غور و فکر کیلئے بڑا سامان عبرت و بصیرت ہے کہ آخر وہ کون قادر مطلق اور حکیم مطلق ہے جو انسان کو اس قدر حکمت اور قدرت سے پیدا کرتا اور اس کو وجود بخشتا ہے۔ اس کا اس انسان پر کیا حق ہے ؟ اور اس کے اس حق کے ادا کرنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اور اس انسان کا مقصد وجود کیا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ وباللہ التوفیق مایحب مایرید۔ 3 وجود انسان قدرت کا ایک ععظیم الشان مرقع عبرت و بصیرت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا انسان پر ایک ایسا دور نہیں گزرا جبکہ اس کا کوئی نام و نشان بھی نہ تھا۔ اور استفہام جیسا کہ اوپر بھی بیان ہوا تقریری ہے، یعنی ہاں یقینی طور پر اس انسان کا ایک دور ایسا گزرا ہے جبکہ اس کا کوئی نام و نشان بھی نہ تھا کہ ایک زمانہ دراز تک جیسا کہ ماہرین ارضیات (جیالوجی والوں) کا کہنا ہے کہ اس زمین پر کسی طرح کی زندگی ہی ممکن نہ تھی ‘ یہ کرئہ ارضی جب کرئہ شمسی سے الگ ہوا تو یہ اس قدر گرم اور اتنا ملتہب تھا کہ اس پر کسی طرح کی زندگی کا کوئی امکان ہی نہیں تھا ‘ پھر صدیوں بعد جب رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو کر یہ کرئہ ارض زندگی کے قابل ہوا ‘ تو اس پر زندگی کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوئے، اور اس کے کہیں بعد جاکر حضرت انسان اس پر نمودار ہوا، اور پھر بڑھتا پھیلتا گیا اور یہ زمین آباد ہوتی گئی، اور اس کیلئے بھی اسے کئی ادوار سے گزرنا پڑا۔ ایک زمانہ اس نے رحم مادر کے اندر مختلف حالات میں لوٹتے پوٹتے گزارا، اس سے پہلے یہ صلب پدر میں اس سے پہلے خون میں اور اس سے پہلے مختلف غذاؤں اور عناصر کی شکل میں، پتہ نہیں کہاں کہاں اور کس کس طرح یہ ادلتا بدلتا رہا، یہاں تک کہ یہ کامل انسان اور اس کائنات کا مخدوم ومطاع بن کر اللہ کی اس دھرتی پر آموجود ہوا، اور پھر اس پر دندناتا پھرنے لگا اور یہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا " فسبحانہ من الہ سمیع بصیر قادر قیوم جل و علا شانہ " سو اس ارشاد اور اس سوال و استفہام سے انسان کو دعوت غور و فکر دی گئی ہے، اور اس کے قلب و ضمیر اور نظام عقل و فکر کو جھنجھوڑا گیا ہے، کہ یہ انسان اس بارہ سوچے اور غور و فکر سے کام لے کہ اسے مختلف مراحل سے گزار کر اس کو خلعت وجود کی اس نعمت سے کس نے نوازا ؟ اور عقل و فکر کی ان عظیم الشان قوتوں سے اس کو کس نے سرفراز ومالا مال کیا ؟ اور قدرت نے اس پر اتنا اہتمام کیوں صرف فرمایا ؟ اس کو ان صلاحیتوں سے کیوں نوازا ؟ کیا یہ سب کچھ محض اس لئے کیا گیا کہ یہ کھائے پیے اور ایک دن یونہی مر مٹ کر ختم ہوجائے ؟ کیا اس پر اس کی ان قوتوں اور صلاحیتوں سے متعلق کوئی ذمہ داری نہیں عائد ہوتی ؟ اور کیا اس سے ان کے بارے میں کوئی پوچھ نہیں ہوگی ؟ جس نے اس کو یہ سب کچھ بخشا ہے ‘ کیا اس کا اس پر کوئی حق عائد نہیں ہوتا ؟ اللھم ربنا فھذہ نوا صینا بین یدیک اللھم فخذنا بھا الی ماتحب وترضی من القول والعمل بکل حال من الاحوال و فی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، ولا تکلنا الی انفسنا طرفۃ عین، یا ذالجلال والاکرام، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ۔ سبحانہ تعالیٰ ۔
Top